صرف چار سال بعد کراچی شہر میں داخل ہوتے ہوئے میں سڑک پر نوری آباد کاسنگ میل ڈھونڈتا ہی رہ گیا جبکہ گاڑی گنجان آبادی میں داخل ہوچکی تھی۔ کراچی اور حیدرا آباد کے بیچ آنے والے چھوٹے چھوٹے صحرائی دیہات نظر نہ آئے اب یہاں ڈی۔ ایچ۔ اے اور بحریہ ٹاؤن کے نام سے نئے جگمگاتے شہر آباد ہوچکے ہیں۔ کچھ سالوں پہلے سبزی منڈی کو شہر سے باہر بناد یا گیا مگراب وہ بھی ایک بار پھر وسط شہرآچکی ہے۔ جو جگہ خالی نظر آئی وہاں مستقبل میں آباد کی جانے والی کسی بستی کی نوید ایک سائن بورڈ کی شکل میں ایستادہ نظر آتی ہے۔ کراچی شہر گویا شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔

منزل کی طرف جاتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ انچولی اور لیاقت آباد سے گرومندر کے راستے صدر سے ہوتے ہوئے کلفٹن پہنچ جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ سہراب گوٹھ سے گاڑی لیاری ایکسپریس وے پر چڑھی تو پلک جھپکتے بندرگاہ پہنچی جہاں سے مائی کولاچی بائی پاس سے ہم کلفٹن کے ساحل سمندر پر تھے۔ شہر کے بیچ ایک سرے سے دوسرے سرے تک بہتی لیاری ندی جو کبھی یہاں شفاف میٹھے پانی کا منبع اور زراعت کی شہ رگ تھی اب ایک پر نالہ ہے۔ اس ندی کے دونوں کناروں پر بنائی جانے والی لیاری ایکسپریس وے نے ایک طرف بند ر گاہ سے مال کی اندرون ملک ترسیل کو سہل بنا دیا ہے تو دوسری طرف نئی بسائی جانے والی بستیوں کے مکینوں کو فاصلے کے حساب سے دور رہتے ہوئے بھی سفر کے وقت کے حساب سے کراچی شہر سے قریب تر کردیا ہے۔
کراچی میں نئی بسائی جانے والی بستیوں میں میری دلچسپی کی وجہ حالیہ مردم شماری پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے ساتھ نئی بستیوں میں بسنے والے لوگوں کا حدود اربعہ بھی معلوم کرنا تھا کہ آیا شہر میں پہلے سے بسنے والے پھیل رہے ہیں یا یہ نئے آباد گار ہیں۔ کراچی شہر کے اردو بولنے والےزیادہ تر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں آبادی بڑھنے کی شرح کم ہے۔ اردو بولنے والے زیادہ تر پڑھے لکھے ہنرمند ہیں جن کی بڑی تعداد میں دوسرے ممالک میں مہاجرت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی آبادی میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ اب کراچی شہر کی نئی آبادیاں اور بستیاں اردو بولنے والے لوگوں کی نہیں بلکہ اندرون سندھ، بلوچستان اور ملک کے بالائی حصوں سے نقل مکانی کرنے ولوں کی ہیں۔
مردم شماری پر ایم کیو ایم کی تشویش دراصل اس کے نتیجے میں ہونے والی انتخابی حلقہ بندیوں پر عدم اعتمادہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا کہنا ہے کہ آخری حلقہ بندیاں مشرف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کی مرضی اور منشا سے ہوئی تھیں۔ کثیر السانی شہر میں پشتو، سندھی، پنجابی، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کے رہائشی علاقوں کی انتخابی حد بندیوں میں تقسیم ایسے ہوئی ہے کہ ان کا ووٹ اردو بولنے والوں کی اکثریت میں بے معنی ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم اور نئی حلقہ بندیوں کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ مردم شماری میں اگرکراچی شہر کی آبادی میں اضافہ نہیں ہوا ہے تو حلقہ بندیوں میں رد و بدل کی کوئی ضرورت نہیں۔ حلقہ بندیوں میں ردوبدل کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی نشستیں کم ہونے کا خدشہ ہے اس لئے یہ امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کو اپنے خلاف تعصبی کارروائی اور سازش قرار دے کر ایم کیو ایم انتخابات کا بائیکاٹ بھی کردے۔
ایم کیو ایم جو گزشتہ چار دہائیوں سے کراچی شہر کی بلا شرکت غیرے مالک تھی اب اپنے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی مزید دو دھڑوں میں تقسیم کی بنیاد بھی کسی قسم کے نظریاتی یا اصولی اختلاف پر نہیں بلکہ سانپ کو مارتے ہوئے لاٹھی بچانے کی کوشش ہے۔ کراچی سنٹرل جیل کے ایک طرف بہادر آباد اور دوسری طرف پی آئی بی کالونی واقع ہے۔ بہادر آباد اور پی آئی بی میں بیٹھنے والے ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے آتے جاتے جیل روڑ کے بجائے جہانگیر کوارٹرز والا راستہ اختیار کرتے ہیں جو نسبتاً زیادہ محفوظ ہے۔ فاروق ستار گجراتی میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو زیادہ تر کاروبار سے منسلک ہے۔ کراچی کے زیادہ تر میمن پیپلز پارٹی اور مذہبی جماعتوں سے وابستہ ہیں لیکن فاروق ستار پی۔ آئی۔ بی کالونی کے جس علاقے میں رہائش پزیر ہیں وہاں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت ہےاس لئے وہ زمانہ طالب علمی سے ہی الطاف حسین کے مہاجروں کو یکجا کرنے کی تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو بھی فاروق ستار کی وابستگی کا بھر پور فائدہ میمن برادری کی مالی معاونت میں فراخدلی کی شکل میں ہواہے۔ اب فاروق ستار کے ساتھ ایک اور کردار کامران ٹیسوری بھی کہانی میں شامل ہوچکا ہے جس کو بہادر آباد والے فساد کی جڑ سمجھتے ہیں لیکن فاروق ستار ٹیسوری کو بطور ڈھال ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کےتقسیم در تقسیم کے عمل میں ڈیفنس میں بیٹھے مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم حقیقی کے ہاتھ کیا آئے گا اس کا فیصلہ بھی انتخابات میں ہوگا۔
کراچی میں آباد ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے اردو بولنے والے لوگ ایم کیوایم سے پہلے زیادہ تر مسلم لیگ، جمیعت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ جماعت اسلامی اب بھی کسی قدر سر گرم ضرور ہے مگر اس کی قیادت جب سے پختونوں کے پاس گئی ہے اردو بولنے والوں میں اس کے اثر و رسوخ میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ جمیعت علمائے پاکستان کی جگہ یہاں سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری لے چکے ہیں مگر ان کو وہ حمایت ابھی تک حاصل نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ کی کراچی شہر میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ سندھ کے صوبے میں۔
عمران خان کی تحریک انصاف کو یہاں بھی شہری متوسط طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ ایم کیو ایم کے تقسیم اور غیر فعال ہونے کے بعد عمران خان کے لئے نادر موقع ہے کہ وہ کراچی شہر میں نوجوانوں کو اپنی جماعت کی طرف متوجہ کرے۔ کراچی میں کچھ لوگوں سے اس بارے میں بات کی تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف ڈیفنس اور کلفٹن کے بنگلوں سے ابھی باہر نہیں نکلی ہے۔ اگر یہ صورت حال جاری رہی تو تحریک انصاف ایک دو حلقوں سے زیادہ اثر انداز نہ ہوسکے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک اور حلقہ نیابت پہلے سے موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم کے روایتی حلقوں میں دلچسپی نظر نہیں آتی۔ سابق مزدور راہنما عثمان غنی کے بیٹے سعید غنی کو کراچی شہر کی صدارت دینے کے بعد امید تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے لئے غیر روایتی حلقوں میں بھی کام کریں گے لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ زرداری صاحب ایم کیو ایم میں ہونے والی توڑ پھوڑ کو عارضی سمجھتے ہیں اور وہ اردو بولنے والوں کے ساتھ کسی نئے تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔
ہمارے دوست، صحافی اور لکھاری محترم عثمان غازی نے سرخ نوجوانوں (ریڈ یوتھ) کے نام سے ایک فورس تشکیل دی ہے جس نے کراچی شہر میں صفائی مہم سے اپنے کام کا آغاز ضلع وسطی سے کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر سے کچرا صاف کرنے کے لئے کسی قسم کے اختیارات کی نہیں نیت کی ضرورت ہے۔ ابھی تک عثمان نے پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کے علاوہ فاروق ستار سمیت شہر کے کئی راہنماؤں کے ہاتھ میں کچر ا صاف کرنے والا پھاوڑا اور بیلچہ تھما دیا ہے۔ عثمان غازی کی مہربانی تھی کہ وہ اپنی تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر خاکسار سے ملنے آئے۔ وہ پر امید ہیں کہ وہ کراچی کے شہریوں کی کچرا سے جان چھڑانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مودبانہ طریقے سے متحرک کرسکیں گے۔ اگر ایسا نہ ممکن ہوسکا تو ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے سرخ شرٹ پہنی ہے اور ان کی تحریک ایک انقلاب میں بھی بدل سکتی ہے۔
پھیلتے کراچی کی بدلتی ہواؤں میں کچھ بھی ممکن ہے۔



بشکریہ علی احمد جان