یوں تو ہماری سیاست میں ڈاکٹروں کا ذکر وقتاً فوقتاً آتا ہی رہا ہے، جیسے کسی نہ کسی ’ڈاکٹرائن‘ کا آتا ہے، لیکن اس وقت ہمارا اشارہ کراچی کے سیاسی منظر پر نبردآزما ٢ ڈاکٹر ہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر کو فی الحال الیکشن کمیشن نے پسپا کردیا ہے، جب کہ دوسرے ڈاکٹر سرخرو ٹھیرے ہیں، جی ہاں بالکل، ان میں سے پہلے ڈاکٹر ’ایم کیوایم‘ (پی آئی بی) کے ڈاکٹر فاروق ستار ہیں، جب کہ دوسرے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ہیں، جن کی ’ایم کیو ایم‘ بہادرآباد اب اصلی ’ایم کیو ایم‘ (پاکستان) ہونے کی دعویدار بن رہی ہے۔
خیر سے دونوں ہی ’ایم بی بی ایس‘ ڈاکٹر ہیں، اس لیے لونڈے لپاڑوں کی جماعت کی بھپتیاں سہنے والی ’ایم کیو ایم‘ پر ہم اس وقت تو ایسا کوئی الزام نہیں دھر سکتے، پھر یہ دونوں ڈاکٹر اپنے شہر کی نبض شناسی کے دعوے دار ہیں، لیکن ابھی ’کھیل‘ ختم نہیں بلکہ شروع ہوا ہے۔ عام انتخابات تک دیکھتے جائیے کہ ’پتنگ‘ کس کے ہاتھ رہتی ہے اور ڈور کس کے کنے، یا پھر ہوسکتا ہے کہ انتخابی نتائج کے ثمرات کو پوری طرح سمیٹنے کے لیے یہ دونوں پھر سے ایک ہوجائیں، جیسے سینیٹ الیکشن سے ایک دن پہلے ہوئے تھے، یا پھر دونوں میں سے کچھ بھی ہمیں بیلٹ پیپر دکھائی ہی نہ دے۔
اب ان کے بانی الطاف حسین کی سمت دیکھیے تو انہوں نے بھی لندن میں ایم کیو ایم کا کنوینر ڈاکٹر ندیم احسان کو بنا رکھا ہے، گویا اب ایم کیو ایم بہ یک وقت 3 الگ الگ ڈاکٹروں کے ’زیرِ علاج‘ ہے، مگر پھر بھی افاقہ نہیں ہو پا رہا۔ ندیم احسان سے قبل بھی الطاف حسین ایک ڈاکٹر، حسن ظفر عارف کو کنوینر شپ دے چکے ہیں، جو ’پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے اور گزشتہ برس ابراہیم حیدری کراچی میں پُراسرار انداز میں مردہ پائے گئے۔ اُن سے قبل ایم کیو ایم کے سابق جنرل سیکریٹری اور کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق بھی لندن میں قتل کیے جاچکے ہیں، عجب اتفاق ہے کہ وہ بھی ایک ’ایم بی بی ایس‘ ڈاکٹر تھے۔
ایم کیو ایم کے ایک اور نمایاں ترین ڈاکٹر، سابق گورنر سندھ عشرت العباد خان بھی تو ہیں، جو بڑے چاؤ سے صوبے کی گورنری پر طویل ترین عرصے تک براجمان رہے اور اب دبئی میں جا دبکے ہیں۔ گاہے بگاہے اُن کے بھی کراچی کے منظرنامے پر کچھ گُل کھلانے کی خبریں آتی رہتی ہیں، لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ وہ فی الوقت ایم کیو ایم کا کچھ ’علاج‘ نہیں کر رہے، بلکہ بیمار سے دور بیٹھے زندگی کو انجوائے اور اپنی انٹری کی اجازت کا انتظار کررہے ہیں۔ اسی جماعت کے ایک اور طبیب سابق وزیرِ صحت ڈاکٹر صغیر احمد اب سید مصطفیٰ کمال کے ہم رکاب ہوئے ہیں اور ان کی ’پاک سرزمین پارٹی‘ کے مرکزی راہ نما کہلاتے ہیں، یعنی وہ علی الاعلان ایم کیو ایم کو ’لاعلاج‘ قرار دے چکے ہیں
ایم کیو ایم اور ڈاکٹروں کے تذکرے پر یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ سندھ میں جب اس جماعت نے اپنی سب سے بااختیار حکومت بنائی تو اس کا وزیرِاعلیٰ ارباب غلام رحیم بھی ایک ڈاکٹر رہا۔ پھر اتفاق دیکھیے کہ ایم کیو ایم کی پہلی سب سے بھرپور مخالفت میں گونجنے والی آواز ذوالفقار مرزا کے نام کے ساتھ بھی ’ڈاکٹر‘ کا لاحقہ چپکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی میں ایم کیو ایم کے قریب سمجھے جانے والے بھی ایک ڈاکٹر، ’عاصم حسین ہیں۔
نہ جانے لفظ ’ڈاکٹر‘ اور ایم کیو ایم کے درمیان ایسا کیا سمبندھ ہے کہ پیپلزپارٹی میں ایک اور ایم کیوایم نواز کہی اور سمجھی جانے والی شخصیت سابق وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کے نام کے ساتھ کسی بھی قسم کا ’ڈاکٹر‘ نہ جُڑا تھا، لیکن انہیں ڈاکٹر عشرت العباد نے جامعہ کراچی سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کرا دی۔
اب اِن ہم قسم کے ڈاکٹروں کی سعی حاصل اور لاحاصل کے نتائج سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے اتار چڑھاو کے لگ بھگ 5 برس بھی پورے ہونے کو ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ جماعت مشکلات سے گزری ہے، لیکن اس کا یہ حال کبھی نہیں ہوا تھا۔
ایم کیو ایم کے ہمہ قسم کے قائدین سے نچلے ذمے داران تک لاکھ ان مشکلات کی شکایت کریں، لیکن جب تک وہ اپنا کڑا محاسبہ نہیں کریں گے، تو چاہے جتنے ’ڈاکٹر‘ آزما لیں، مشکلات نہ ٹل سکیں گی۔
متوسط طبقے اور مہاجروں کی محرومی کی نام لیوا اس ’تحریک‘ کے نام لیواؤں نے شہر میں کیا کیا گُل کھلائے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اس لیے اگر فنا اور بقاء کے مرحلے سے بہتر طرح گزرنا ہے، تو پہلے اپنی غلطیاں سدھاریے، پھر جبر و زیادتی کی بات زیادہ جچے گی۔ دھونس دھمکی اور دھاندلی کے لگاتار الزامات کے باوجود ایم کیو ایم عوامی حمایت اور نمائندگی کے دعوے کو ہمیشہ کسی نہ کسی سطح پر ثابت کرتی رہی ہے، عوامی حمایت ہی میدانِ سیاست میں بڑی طاقت ہوتی ہے، مگر وقت اور حالات یکساں نہیں رہتے، اور شاید یہی نوشتہ دیوار بھی ہے، اسے پڑھ لیجیے

بشکریہ …… رضوان طاہر مبین