سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار جسے گزشتہ روز سپریم کورٹ کے احکامات پر گرفتار کیا گیا تھا کو آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
پولیس آج عدالت سے سابق ایس ایس پی کا جسمانی ریمانڈ کی درخواست کرے گی۔
ایک ماہ سے زائد عرصے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے غائب رہنے والے راؤ انوار نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔
ان کے پیش ہونے پر چیف جسٹس کے احکامات کے بعد انہیں گرفتار کرکے اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ راؤ انوار کو کراچی میں جنوری 2018 میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کیس میں نامزد ہیں۔
انہیں آخری مرتبہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر بیرون ملک روانہ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا جسے امیگریشن حکام کی جانب سے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کی پولیس کو مدد کرکے انہیں گرفتار کرنے کی ڈیڈ لائن دیے جانے کے باوجود راؤ انوار مفرور تھے۔

نقیب اللہ محسود کا قتل
خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔
اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔