لال رنگ کی نیکر اور اُس پر کالے رنگ سے بنے ہوئے کچھ نقش ،نیکر نئی تھی، پر اُس پر پہنی ہوئی قمیض پُرانی، دیوار سے لگا جانے میں کس بات پر اچھل رہا تھا یاد نہیں ، امی جان صحن میں رکھی چوکی پر بیٹھی تھیں، گھر پرانا تھا مگر امی کی قینچی نئی تھی پیتل کی، جانے کس بات پر امی نے یکدم مجھے قینچی کھینچ کر ماری جو سیدھی میرے کولھے پر آن کر لگی! لال نیکر کے باجود امی جان کو دور سے ہی خون نظر آ گیا، میں بہت رویا مگر مجھ سے زیادہ میری امی جان روئیں۔
امی جان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، بہت زیادہ، مگر اُن کے بھائی نے انھیں مڈل سے آگے پڑھنے نہیں دیا۔ امی جان کو جب دیکھا کچھ نا کچھ پڑھتے ہوئے دیکھا، کبھی کوئی رسالہ کبھی کوئی دینی معلوماتی کتاب، کبھی کچھ تو کبھی کچھ! امی جان پان کھایا کرتی تھیں، امی کے پاندان میں ، ایک کلیہ میں کچھ غیر ضروری چابیوں کے ساتھ ساتھ سکے بھی پڑے ہوا کرتے تھے ، پاندان کی تھالی اور کُلیوں کے ڈھکن پر کور امی جان گتے کے بنا کر لگایا کرتی تھی کبھی کبھی وہ پلاسٹک شیٹ کے ہوا کرتے تھے، امی جان تھالی کے نیچے پیسے رکھا کرتی تھیں ، لال ہرے نیلے ، ہر رنگ کے، میں جب بھی پاندان کھولتا امی کو پتہ چل جاتا اور وہ جہاں بھی ہوتیں وہیں سےاونچی آواز میں کہتیں کہ خبردار جو پیسوں کو ہاتھ بھی لگایا۔۔۔۔۔
امی ہم سب کے لیے پیسے جوڑ جوڑ کر رکھا کرتی تھیں ، اور جب ہم پیسے کمانے کے قابل نہیں تھے جب وہ ہمارے لیے کام بھی کیا کرتی تھیں،مجھے یاد ہے میں باہر سے کھیل کر واپس گھر میں داخل ہوا، سامنے چوکی پر امی جان نماز پڑھ رہی تھیں ، سامنے بہت ساری شلواریں، پڑی تھیں میں دیکھتے ہی سمجھ گیا اب میری خیر نہیں اور مجھے انہیں دے کر آنا ہوگا۔۔ امی جان ، محلے میں ہی ذرا دور ایک گھر سے کپڑے لایا کرتی تھیں، سینے کے لیے ،امی نے سلام پھیرا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ،میں جا کر امی کی گود میں لیٹ گیا، امی دعا مانگ رہی تھیں ، میں امی جان کے پیٹ میں اپنا چہرا گھسا کر لیٹا تھا، امی نے دعا مانگ کر میری تشریف پر ایک زور دار ہاتھ مارا اور کہا، جاؤ یہ شلواریں ظاہرہ آپا کے ہاں دے آؤ۔
میں منہ بسورتا ہوا، امی کی گود میں سے اُٹھا، اور شلوریں ایک تھیلے میں بھر کر چل پڑا، ظاہرہ آپا کا گھر سرکاری راشن گھر سے کچھ آگے تھا، میں ظاہرہ آپا کے گھر میں داخل ہوا، میں نے دیکھا کہ ظاہرہ آپا کے شوہر بہت عجیب حالت میں بیٹھے ہیں اور گھر کے سب لوگ پریشان ہیں، اُن کے کپڑوں پر جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا، میں نے تھیلا ظاہرہ آپا کی جانب بڑھایا۔۔ انہوں نے کہا، اماں کو بتا دینا کہ صدر بوہری بازار میں بم دھماکے ہوئے ہیں اور وہاں سے مال نہیں آیا اور جانے اب کتنے دن نہیں آئے گا۔۔
میں خوشی سے جھوم اُٹھا کہ اب مجھے کچھ دن کے لیے آنا جانا نہیں پڑے گا، اور نہ دھاگے کی ریل لینے بازار جانا پڑے گا۔ میں نے گھر کی جانب دوڑ لگائی اور یہ خبر اماں جان کو سُنا دی جسے سن کر ان کے چہرے پر افسردگی نمایاں ہو گئی اور انہوں نے کچھ کہے بنا چوکی پر رکھے تکیے سے ٹیک لگا لی۔
مجھے سائیکل چاہیے تھی، مجھے یاد ہے ان دنوں کراچی کی جیکسن مارکیٹ میں باہر سے پرانی مگر اچھی سائکلیں آیا کرتی تھی یہ امی جان ہی تھیں جنہوں نے مجھے پیسے دیے اور میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جا کر ایک سائیکل لے کر آیا، اُس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ جو سائیکل میں خرید چُکا ہوں وہ خواتین کی ہے، احباب نے اُس سائیکل کا نام بے بی رکھ دیا۔جمعے کے دن صبح سے ہی میرے پیچھے پڑ جاتی تھیں، نماز نماز نماز۔۔ اور جب تک میں جمعے کی نماز پڑھ کر نہیں آ جاتا تھا اُنہیں سکون نہیں ملتا تھا۔۔ اب تو کئی جمعے گزر جاتے ہیں ۔ وہ ڈانٹ اور آواز نہیں آتی ۔منصور اگر نماز نہیں پڑھی تو کھانا نہیں ملے گا
جب بھی امی جان ناراض ہوتیں میں اُنہیں اپنی باہوں میں بھر لیتا تھا، امی جان کا نرم اور کمزور وجود جب میری باہوں میں آتا تو مجھے لگتا میں دنیا کا سب سے طاقتور انسان ہوں! اب مگر نہیں ہوں ، جانے کیوں یہ جو ماں ہوتی ہے یہ ہر چیز کے آگے بندھ بن کر کھڑی ہوتی ہے، کوئی چیز آپ تک نہیں آنے دیتی ۔
جو پانی کی موٹر کبھی خراب نہیں ہوتی تھی اب وہ امی کے کے جانے کے بعد آئے دن خراب ہونے لگتی ہے، جب تک امی جان تھیں میرے سر میں موجود مرض نے کبھی سر نہیں اُٹھایا، اب تو موا جب دیکھو پھنکارتا ہے! امی کے ہوتے کبھی کوئی کام نہیں اٹکا، اب تو سیدھے کام بھی اٹک جاتے ہیں ! بجلی جایا کرتی تھی، اُس وقت جنریٹر کا تصور نہیں تھا، میں امی جان کو جب وہ لیٹ جاتیں پنکھا جھلا کرتا ، مجھے اس کی اس قدر پریکٹس ہو گئی تھی کے میں کھڑے کھڑے امی جان کو پنکھاجھلتا اور کھڑے کھڑے ہی آنکھیں موند لیتا۔میرا ہاتھ ایک ردھم میں چلتا رہتا ۔دو گھنٹے ،تین گھنٹے، پھر جب میں سو جاتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ امی میرا ہاتھ دبا رہی ہیں ! مجھے کبھی کبھی اپنے اوپر گرم بوندیں سی گرتی بھی محسوس ہوتیں
ابو جان کا انتقال ہو چُکا تھا، امی بہت کمزور ہو چکی تھیں، بہت کم بات کرتی تھیں ، غصہ بہت کرنے لگی تھیں، میں سر جھکا کر سُنتا اُن کے کمزور ہاتھوں سے پٹا کرتا، تین بچوں کا باپ ہونے کے باجوداُن سے چپل سے مار کھاتا، جہاں جہاں چپل لگتی وہاں ایک عجیب سی میٹھی چبھن کا احساس ہوتا ، میں امی کو بہت تنگ کرتا تھا، امی اکثر کہتیں یہ تو دنیا میں بھی مجھے مارتا ہوا آیا محرم کے دن تھے، میں بچوں کے لیے مقامی طور پر کاغذ ، مٹی اور لکٹری سے بنے ہوئے کھلونا لے کر آیا تھا، ہم سب امی کے کمرےمیں تھے ، بچے نیچے قالین پر بیٹھے کھیل رہے تھے اور امی جان پلنگ پر بیٹھی اُنہیں دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں، یکدم مجھے دیکھ کر کہنے لگیں، تم اپنے دفتر سے تین چار دن کی چھٹی لے لینا۔۔۔ میری عدت ختم ہو گی تو مجھے سب کے پاس لے کر جانا، پھر امی نے ماریہ کو بلایا اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور کہا درد تو نہیں ہوتا ماریہ کے کچھ سمجھ نہیں آیا ۔۔۔۔ کہنے لگی نہیں دادو! مگر میں سمجھ چکا تھا
٢٠٠٧ اکتوبر، میں بہت پریشان تھا میری بیٹی صرف 4 دن کی تھی ، اور اسے ڈاکٹر نے ایک عجیب سی بیماری بتا دی تھی، جس کے باعث وہ کبھی چل پھر نہیں سکے گی! امی نے میرے روئے ہوئے چہرے کی جانب دیکھا اور صرف ایک جملہ کہا کچھ نہیں ہو گا! اکتوبر کی کوئی شام تھی ماریہ چھ دن کی ہو چکی تھی ، لیاقت نیشنل ہسپتال تھا ایک سرجری ہو چکی تھی ریڑھ کی ہڈی کے پاس، ہسپتال میں بہت رش تھا، بے نظیر کے قافلے پر بم بلاسٹ ہوا تھا، ڈاکٹر نہیں تھے میری نظر ماریہ کی کمر پر ڈریسنگ کی جانب پڑی، جہاں سے خون رس رہا تھا، سی ٹی ا سکین اور دیگر رپورٹس کا انتظار تھا، میں خون دیکھ کر کاونٹر کی جانب بھاگا، ڈاکٹر نہیں تھے۔۔
مجھے لگا جیسے میں اپنی بیٹی کو کھو دوں گا، میں کاونٹر کے پاس کھڑا تھا کہ میرے پاس ایک لیڈی ڈاکٹر آ کر کھڑی ہوئی۔۔ میں نے اسے جلدی سے ماریہ کے بارے میں بتایا، وہ بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھی ، ہسپتال میں ایک دہشت کا ماحول تھا، سیاسی جماعت کے کارکن بہت غم اور غصے میں تھے پیرا میڈیکل اسٹاف مصروف تھا سارے ڈاکٹر زخمیوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ لیڈی ڈاکٹر نے تھکن کے باوجود میری بیٹی کو جا کر دیکھا۔۔ اور دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو گئی اُس نے پوچھا کیا اسے نیورو سرجن ڈاکٹر سلمان شریف نے آپریٹ کیا ہے؟ میں نے کہا ہاں اُس نے فوراً ڈاکٹر شریف کو فون ملایا اور کچھ دیر اُن سے بات کی اور اس کے بعد کہا بچی کو لے کر آئیں ۔۔ میں ماریہ کو لے کر اُس کے ساتھ چلا وہ مجھے لے کر منی آپریشن تھیٹر لے آئی اور کہا، اس کا زخم کھل گیا ہے، کوئی پیرا میڈیکل اسٹاف موجود نہیں سب کے سب بم بلاسٹ سے زخمی ہونے والوں میں لگے ہوئے ہیں ، آپ کو میری مدد کرنا ہو گی، اس کا زخم صاف کر کے دوبارہ ٹانکے لگانا ہوں گے! آپ کرو لیں گے؟ پکٹر لیں گے بچی کو؟
میں ڈاکٹر کی شکل دیکھ رہا تھا اور میرے کانوں میں امی جان کی آواز گونج رہی تھی کہ کچھ نہیں ہو گا! میرے منہ سے نکلا ہاں۔۔۔ میں نے اپنی چھ دن کی بچی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔ ڈاکٹر نے دستانے پہنے اور سرنج میں پانی بھر کر زخم پر ڈالنے لگی ۔۔ میرے ہاتھ سیدھے تھے ۔۔۔ ڈاکٹر نے میری جانب دیکھا اور اس کے بعد زخم میں اپنی انگلی ڈال کر اس میں مواد باہر نکالا، اور پھر اُس پر ٹانکے لگائے! میں نے ماریہ کو سختی سے پکڑا ہوا تھا۔۔۔ میں بے اختیاری طور پر دورد شریف کا ورد کر رہا تھا اور میرے دماغ میں بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی کہ کچھ نہیں ہو گا
معلوم نہیں بعد میں کیا کچھ ہوا بس یاد ہے تو اتنا کہ ڈاکٹر نے کہا کہ سب کچھ نارمل ہے ۔۔ جانے یہ کیا معجزہ ہے! ماریہ صحت مند ہے کھیلتی کودتی ہے اپنے ا سکول کی پوزیشن ہولڈر ہے! امی جان تھیں تو بڑی سے بڑی بیماری بھی ٹل جاتی تھی!اب تو سر کا درد بھی لا علاج ناسور بن جاتا ہے


بشکریہ …… منصور مانی