اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اک نسخہ کیمیا ساتھ اپنے لایا
وہ بجلی کا کڑکا یا صوت ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
وہ نسخہءِ کیمیا کیا تھا؟ حُسنِ اخلاق سے سینچا ہوا ایک خوبصورت معاشرہ جہاں مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف نہیں دی جاسکتی، جو ملاوٹ اور دھوکا دہی نہیں کرتا، جو ہمسائے کی دیوار سے دیوار اونچی نہیں کرتا، تجارت میں سچا ہے، عبادات میں مخلص ہے اور اخلاق میں کامل ہے۔
پھر یہ پیغام صحرائے عرب سے ہوتا ہوا چار دانگ عالم تک پہنچا اور ہمارے آبا جن کے مذہب روایات میں اٹے ہوئے تھے، جو معاشرتی تقسیم میں بٹے ہوئے تھے، ایک سوچ میں پڑگئے کہ کل تک جو میری زمین کا ہاری تھا میرا بھائی کیونکر ہوگیا؟
لیکن جن تک پیغام پہنچ گیا انہوں نے رشتہءِ مواخات کو سگوں سے بڑھ کر جانا، مال و اسباب تک بانٹ دیے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور تفرقے سے اجتناب کیا۔
اور اسی غارِ حرا کو دیکھنے کی خواہش مجھے بے تاب کیے ہوئے تھی۔ میرے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے کہا کہ غارِ ثور اور غارِ حرا لوگ الگ الگ دنوں میں طے کرتے ہیں لیکن میرے پاس وقت کی کمی تھی۔
آج صبح نمازِ فجر کے بعد میں غارِ ثور کی زیارت کر آیا تھا جبکہ نمازِ عصر کے بعد غارِ حرا پر جانا طے ہوا تھا، ہم نے نمازِ عصر بھی جبلِ نور کی اترائی میں واقع ایک محلہ میں ادا کی۔ ادائیگی نماز کے فوراً بعد ہم غارِ حرا کی زیارت کو چل پڑے۔
یہاں پر اوپر چڑھنے والی سیڑھیاں قدرے بہتر تھیں اور لگ رہا تھا کہ کسی نے ان کو باقاعدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہماری طرح درجنوں لوگ اوپر غار کی جانب گامزن تھے۔ سیڑھیوں میں بہت ساری جگہوں پر سیڑھیاں بنانے کا سامان تھامے کئی پاکستانی موجود تھے جو آنے والوں کو سیڑھیاں بنانے میں مدد کرنے اور حصہ ڈالنے کی ترغیب دے رہے تھے۔





ان میں سے دو تین لوگوں سے بات کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ زیادہ تر تعداد اندرونِ سندھ کے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی لگی۔ باتوں سے یہ بھی لگا کہ یہ لوگ اب یہیں کے ہو کہ رہ گئے ہیں۔ ان کی سیڑھیاں بھی پینلوپ کے سوئیٹر کی طرح کبھی مکمل ہونے کی نہیں ہیں، لیکن میں نے ان باتوں پر الجھنا مناسب نہیں سمجھا اور پہاڑ کی چڑھائی سے بدلتے ہوئے نظاروں میں منہمک ہوگیا۔
لوگ تھکتے جا رہے تھے اور راستوں میں بیٹھتے جا رہے تھے لیکن پھر سے چل پڑتے جیسے زندگی کی کسی بڑی خواہش کی طرح اوپر چوٹی پر ان کے لیے کوئی سامان موجود ہو۔ صبح غارِ ثور پر چڑھنا مجھے قدرے آسان لگا تھا لیکن اب عصر سے کچھ پہلے کھانا کھانے کے بعد چڑھائی دشوار لگ رہی تھی۔
پچھلے ہفتے میری ماں جی، بہن اور بڑے بھائی غارِ حرا تک ہو آئے تھے۔ مدینہ شریف میں ان سے ہونے والی ملاقات پر میں نے ماں جی کو غارِ حرا چڑھنے پر اتنا مسرور دیکھا تھا کہ جیسے انہوں نے ’کے ٹو‘ فتح کرلیا ہو۔ اب میں اوپر چڑھتے ہوئے ہر لمحہ یہی سوچ رہا تھا کہ چند سو گز چل کر سانس لینے والی میری ماں جی اس چڑھائی پر کیسے چڑھی ہوں گی؟
میں نے بعد میں کئی دفعہ پوچھا، اچھا آپ چڑھی کیسے، کہنے لگی بس اللہ کا حکم ہوا اور چڑھ گئی۔




یہ کہتے کہتے وہ ایسے جذباتی سی دکھائی دے رہی تھیں جیسے اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ ادھر ہی کہیں بس جاتیں۔ انہوں نے بہت ضد بھی کی کہ وہ غارِ ثور پر بھی جانا چاہتی ہیں، لیکن میرے خیال میں اس کی چڑھائی اور راستہ زیادہ مشکل ہے۔
بل کھاتی ان سیڑھیوں نما راستے پر ہم اوپر چلتے چلے آئے، یہاں عین پہاڑ کی چوٹی پر ایک کینٹن بھی موجود ہے، جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اسی کینٹین کے ساتھ ایک چھوٹا سا چبوترا نماز پڑھنے کے لیے مختص کیا گیا ہے، چند لوگ یہاں نوافل پڑھنے میں مصروف تھے۔ یہیں پر کچھ ہی دیر میں پاکستانی انداز میں درود و سلام کی محفل شروع ہوگئی۔
جس گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس نور افروز ساعت پر لاکھوں سلام
یہ سلام جمعہ کی نماز کے بعد ہمارے محلے کی مسجد میں پڑھا جاتا تھا، ہم بھی اپنے بچپن میں لاوڈ اسپیکر کے گرد دائرہ بنا کر یہی سلام پڑھا کرتے تھے، آج یہاں غارِ حرا پر وہی سلام پڑھنے والوں کی کیفیت میں بڑا فرق تھا۔
اس چبوترے کے پاس سے چند سیڑھیاں ایک طرف نیچے اترتی ہیں، جہاں موجود ایک تنگ سی جگہ سے گزر کر غار کے دروازے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس تنگ سی جگہ سے ایک وقت میں ایک ہی انسان گزر سکتا ہے۔ میں نے اس جگہ کا بغور مشاہدہ کیا اور پھر مجھے میری ماں جی کا خیال آگیا جن کو بند جگہوں سے بہت خوف آتا ہے، لہٰذا مجھے یہ یقین تھا کہ وہ یہاں سے آگے نہیں گئی ہوں گے۔ جب میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے برخلاف جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، وہ تو وہاں سے بھی گزری تھیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آخر کیسے؟ تو انہوں نے کہا کہ بس گزر گئی اور وہاں نفل بھی پڑھے۔
اس جگہ سے گزر ایک کونے میں یہ غار موجود ہے، جسے غارِ حرا کہا جاتا ہے۔ غار پر لوگوں کا خاصا رش تھا اور لوگ اندر نفل پڑھنے کے لیے بے تاب تھے اور قطار میں لگے اپنی باری کے منتظر تھے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ اس غار کے اندر زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔ اپنی باری کے منتظر لوگ بے چین تھے اور آگے موجود لوگوں کو ان کی سستی پر کوس رہے تھے، لیکن جب ان کی باری آتی تو وہ بھی پیچھے والوں کو بھول جاتے، کہ کسی کا بھی وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، لیکن اس ہجوم کی وجہ سے وہاں خاصا شور ہو رہا تھا۔
میں نے غار کے پاس ایک بڑے پتھر پر کھڑے ہوکر اردگرد کا جائزہ لیا تو سامنے مکہ دکھائی دے رہا تھا۔ پہاڑ کے اس گوشے پر، سب لوگوں کو نفی کرکے ایک لمحے کو سوچا تو اس جگہ کی ویرانگی پر رشک آیا۔ یہاں برسنے والی خاموشی کو تصور کیا جاسکتا ہے، ایسی جگہ پر حضرت محمد ﷺ کی نگاہ انتخاب پڑی تو وہ خاص تو ہوگی۔
ایک لمحے کو میں نے سوچا کہ آپ ﷺ گھر سے کبھی کبھی کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ لے آتے اور اس جگہ پر قیام کرتے، اور یہ سب سوچ کر ان لمحوں کی سادگی پر رشک آیا۔ آج بھی بھیڑ میں کھوئے ہوئے انسان کو اپنی زندگی میں کبھی لائحہ عمل کی ضرورت ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے لیے ایک پُرسکون تنہائی کا دروازہ امکان میں رکھے۔




ویسے تو سارا دن ہی یہاں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد یہاں آنے کو ترجیح دیتے ہیں یا نمازِ عصر کے بعد مغرب تک کا وقت بھی بہت مناسب ہے اور کئی لوگ یہاں نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد واپس جاتے ہیں۔
کچھ دیر اس جگہ پر پلکوں سے بوسے دینے کے بعد میں واپس چلا آیا۔ اس جگہ سے مکہ کچھ زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا، لیکن 1400 سال پہلے، اپنے گھر سے دور اس ویرانے کا راستہ سوچوں بھی تو سجھائی نہیں دیتا۔
غارِ ثور اور غارِ حرا پر چڑھتے ہوئے کئی بار اس خیال سے واسطہ رہا کہ ان پتھروں اور راستوں پر کہیں نہ کہیں سرورِ کائنات کے قدموں کے نشانات بھی ہوں گے۔ محبت اور عقیدت کے ہلکورے چلتے تھے اور سفر کی ساری تھکان مٹا دیتے تھے۔ آپ کبھی ان گلیوں میں جائیں تو میرا بھی سلام پیش کیجیے گا اور دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
بشکریہ ….. رمضان رفیق