شام کی سرکاری فوج نے مشرقی غوطہ کے جنوبی حصّے میں واقع اہم ترین قصبے حموریہ پر کنٹرول حاصل کرلیا۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق یہ پیش رفت علاقے کے دوسرے نمایاں ترین گروپ فیلق الرحمن سے جنگجوؤں کے انخلاء کے بعد سامنے آئی۔
العربیہ ٹی وی کے مطابق برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے بتایا ہے کہ شامی حکومت کی فوج نے الغوطہ الشرقیہ کے 70 فیصد سے زیادہ رقبے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
خیال رہے کہ شام کی سرکاری فوج کئی روز کی شدید بم باری اور مقامی آبادی کے ہزاروں افراد کی نقل مکانی کے بعد قصبے میں داخل ہو گئی تھی۔
تنظیم کے مطابق گزشتہ روز 12 ہزار سے زیادہ افراد حموریہ اور اس کے نواحی قصبوں سے نکل کر شامی حکومت کی فوج کے زیر کنٹرول علاقوں کی جانب کوچ کر گئے۔
دوسری جانب بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) کے امدادی سامان سے لدے 25 ٹرک شام کے محاصرہ زدہ علاقے مشرقی الغوطہ میں داخل ہوگئے۔
العربیہ ٹی وی کے مطابق آئی سی آر سی کی خاتون ترجمان آئیولینڈا نے ایک جاری بیان میں بتایا کہ مشرقی الغوطہ میں بھیجے گئے امدادی سامان میں 26100 افراد کے لیے ایک ماہ کے راشن کے علاوہ دوسری اشیاء شامل ہیں۔
یہ امدادی قافلہ مشرقی الغوطہ میں واقع سب سے بڑے شہر الدوما کی جانب بھیجا گیا، جس پر باغی دھڑے جیش الاسلام کا کنٹرول ہے۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ آئی سی آر سی نے خوراک کے 5220 پارسل بھیجے ہیں اور عالمی خوراک پروگرام نے آٹے کے 5220 تھیلے بھیجے ہیں جبکہ ایک پارسل سے پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان ایک ماہ تک گزارہ کر سکتا ہے۔
دریں اثناء انٹر فیکس نے روس کی وزارت دفاع کے تحت شام میں کام کرنے والے مرکز برائے مصالحت کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشرقی الغوطہ میں 137 ٹن خوراک انسانی امداد کے طور پر پہنچائی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود شامی حکومت اور روسی حمایت یافتہ فوج کی جانب سے غوطہ میں باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ علاقے کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے زمینی کارروائی بھی کی جارہی ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ سے جاری لڑائی میں 70 فیصد سے زائد علاقے پر قبضہ کیا گیا تاہم باقی علاقہ اب بھی باغیوں کا مرکز بنا ہوا ہے جس کا دیگر علاقوں سے رابطہ واضح طور پر کٹ گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایک روز قبل ہی غوطہ میں امدادی قافلے محصور شہریوں کو کھانے پینے کا سامان لے کر پہنچ گئے تھے لیکن بمباری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
یاد رہے کہ شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں 2013 کے بعد سے حکومت مخالف باغیوں کا اثر و رسوخ ہے اور یہاں تقریباً 4 لاکھ کے قریب افراد رہائش پذیر ہیں لیکن حالیہ صورت حال کا آغاز 18 فروری کے بعد سے ہوا، جب روس کی حمایت یافتہ شامی فورسز نے باغیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے آپریشن شروع کیا۔
اس آپریشن کے دوران فضائی اور زمینی سطح پر کارروائیاں کی جارہی ہیں جس کے بعد مشرقی غوطہ کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہے اور شہریوں کو خوراک اور ادویات کی سخت کمی کا سامنا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے۔
شام کے مشرقی علاقے غوطہ میں حکومت کی جانب سے تازہ بمباری کے باعث شہر کے کئی علاقوں میں گڑھے پڑ گئے اور درجنوں عمارتیں تباہ ہوگئیں جبکہ علاقے میں جاری لڑائی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار 250 سے تجاوز کرگئی۔