وہ بھی وقت تھا پاکستانیو ! جب چوہدری پرویز الہی کی گاڑی کے آگے مجرے کررہا تھا طلال اور مشرف کا چہیتا اور پالتو بھونپو تھا دانیال اور سب سے بدحال تھا نہال ۔۔ اس وقت اسٹیبلیشمنٹ کو پورے قد سے ایوان میں للکارنے والا ! شب خون مارنے والے وردی پروف صدر کے لتے لینے والا ! پارلیمنٹ میں نہتا ہوکر بھی فوجی آمروں کے کپڑے اتارنے والا ! جرنیلوں کا سب سے بڑا ناقد ! وہ تھا خواجہ محمد آصف
پھر ایک اور وقت آیا جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا! لیکن حقیقت میں یہ بادشاہت تھی ! اس جمہوری بادشاہت میں پارلیمنٹ کے فلور پر سینہ تان کر آمروں ، جرنیلوں کو للکارنا کوئی کارنامہ نہ رہا ! بلکہ بادشاہ وقت کے سیاسی مخالفین کی کردار کشی ہی تاج شریفہ اور تخت رائے ونڈ سے وفاداری کا سب سے بڑا پیمانہ تھا! اور دربار جمہوریت میں پائے تخت سے اسی کا قرب زیادہ تھا جس کے دہانے سے جتنی زیادہ غلاظت نکلتی تھی۔
اور پھر آمر وقت کو آئینہ دکھانے والا مرد آہن خواجہ آصف بھی شاہ وقت کی خوشنودی کے لئے مقدس ایوان میں ایک خاتون کولیگ کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر درباریوں کی صف میں شامل ہوگیا! لیکن اس وقت جب لیڈران مقدس ایوان میں ہذیان بک رہے تھے کسی دانشور کو ، کسی سیاسی تجزیہ کار کو ، کسی سیاسی بزرجمہر کو قوم کی اخلاقی پستی کا ادراک نہیں ہوا
اور پھر ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ کئی لاکھ لوگوں کا نمائندہ ! بائیس کروڑ عوام کا وزیر خارجہ ! خواجہ محمد صفدر کا سیاسی جانشین ! سیالکوٹ کا مرد آہن خواجہ محمد آصف ! اپنے ہی ورکر کنونشن میں منہ کالا کروا بیٹھا، کالی سیاہی سے
دل کرتا ہے کہ سخت الفاظ میں مذمت کروں ! پھر سوچتا ہوں کہ ایک بھرپور قہقہہ لگاؤں ! پھر خیال آتا ہے آنسو بہاؤں
جب حکمران ، مذہبی ٹھیکیدار اور سیاسی لیڈران میرٹ کی بجائے گالیاں بکنے والوں کو اپنا قرب بخشیں گے ! جب شاباشیاں ، طلال ، دانیال اور نہال کو ملیں گی تو پھر ذہنی غلام عوام بھی اسی راستے پر چلے گی ! اور نتیجے میں کالی سیاہی اور پھٹے ہوئے جوتے ہی لیڈروں کا مقدر بنیں گے
جب بھانڈ دانشور اور سیاسی مراثی مریم نواز کے بھاگ کر شادی کرنے کی تشہیر کریں اور اپنے لیڈروں سے شاباشیاں وصول کریں۔ جب ٹکڑیل لکھاری اور درباری گوئیے مخالف سیاسی لیڈر کی ذاتی کردار کشی کریں ، پریس کانفرنسوں میں اس کی بیوی کو طنزیہ پنکی پیرنی اور ان کے نکاح اور عدت پر پروگرام کریں اور انعام میں پرکشش ملازمتیں اور وزارتیں حاصل کریں تو پھر یہ کلچر نیچے عوام تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔ اور نتیجے میں کالی سیاہیاں اور پھٹے جوتے ہی مقدر ٹھہرتے ہیں ۔
یاد رکھنا یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا کہ جب تک کسی بھی پارٹی کے خلاف بدزبانی ، بداخلاقی اور بدمعاشی کرنے والے ہر اس ذہنی غلام ، سیاسی طبلچی اور خوشامدی خچر کو اس کی پارٹی فی الفور فارغ نہیں کرے گی ۔


بشکریہ صاحبزادہ عتیق الرحمان