پچھلے دنوں ایک ایسی تقریب میں شرکت کرنے کا موقع ملا جس میں مولانا جلال الدین رومی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی دونوں کو ایک ساتھ خراجِ عقیدت پیش کیا جارہا تھا۔ مدن فقیر ریزورٹ، بھٹ شاہ میں جاری اس تقریب میں مذہبی رواداری اور اخوت کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا جہاں شاہ لطیف کا کلام بھی گایا جارہا تھا اور مولانا رومی سے منسوب رقص درویش بھی جاری تھا۔ اس دن مولانا جلال الدین رومی کا 767 واں عرس بھی تھا۔
سندھ کی سرزمین اولیاء اللہ اور صوفیوں کی سرزمین ہے، یہاں لال شہباز قلندر، سچل سرمست اور شاہ لطیف سمیت کئی بزرگان اور اولیائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں اسلام کی ترویج کی، اس کے ساتھ لوگوں تک محبت، رواداری اور بھائی چارے کا پیغام پہنچایا۔ اُن بزرگوں کی درگاہیں آج بھی مرجع خلائق ہیں، جہاں لوگ باطنی سکون کے لیے دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں۔

بلاشبہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھ کا مان اور اس کی پہچان ہیں۔ سندھ نے شاہ لطیف کے پیغام کو اپنے اندر کچھ اس طرح سمولیا ہے کہ سندھ اور شاہ عبداللطیف بھٹائی ایک ہی چہرے کے دو نام بن گئے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 11 ستمبر کے بعد سے لوگوں نے اسلام کو دہشت گردی کی عینک لگا کر دیکھنا شروع کردیا اور اسلام کے خلاف ایک لہر چل پڑی لیکن بہت جلد اہلِ دانش نے چند محدود سوچ کے لوگوں کا یہ بیانیہ رد کردیا اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں تلاش کرنا شروع کردیا۔ یہ کوشش انہیں بزرگانِ دین کی درگاہوں تک لے آئی اور انہوں نے اولیاء اللہ کے پیغامات کو سمجھنا شروع کیا۔

پاکستان کے چپے چپے پر اللہ کے ولیوں کے مزارات موجود ہیں، ان سب کا فلسفہ اللہ اور انسان سے محبت کا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اسلام کو سمجھنے کے لیے درگاہوں پر آنا شروع ہوگئے۔ اُن میں طلبہ اور محققین کی اکثریت ہے۔ شاہ عبدللطیف بھٹائی کی درگاہ بھی ایک ایسا ہی مرکز ہے جہاں دنیا بھر سے زائرین کے علاوہ محققین کی آمد و رفت بھی جاری رہتی ہے۔ایسے ہی لوگوں کو سہولت بہم پہنچانے کی غرض سے درگاہ کے بالکل سامنے شاہ لطیف فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام مدن فقیر کے نام سے منسوب ایک ریزورٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ دراصل بھٹائی کی نگری میں اس روز اسی ریزورٹ کی افتتاحی تقریب جاری تھی، جس میں لطیفی راگ اور رقص درویشاں یا رقص رومی پیش کیا جارہا تھا۔

مدن فقیر ریزورٹ کی تعمیر میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کے اسمال گرانٹس پروگرام کی جانب سے مالی تعاون کیا گیا۔ اس ریزورٹ کی تعمیر میں یو این ڈی پی اسمال گرانٹس پروگرام کے کنٹری منیجر مسعود لوہار اور درگاہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سجادہ نشین جناب سید وقار حسین شاہ کی خصوصی کاوشیں شامل ہیں۔
وقار حسین شاہ کا کہنا ہے کہ "اب وقت آگیا ہے کہ درگاہوں کے فلسفے کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔ درگاہوں میں جو چندے کے باکس ہیں ان کو تو اپنایا گیا مگر درگاہوں کا فلسفہ اور بزرگوں کی تعلیمات کو نہیں اپنایا گیا۔ آج درگاہوں پر بھکاری مافیا اور نشہ کرنے والوں کا قبضہ ہوگیا ہے، اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ میں یہ ببانگ دہل کہتا ہوں کہ حکومت کی زیر سرپرستی درگاہوں پر غیر اخلاقی کاموں کا چلن عام ہوگیا ہے۔ اس ماحول کے باعث تعلیم یافتہ لوگوں اور فیملی والوں نے درگاہوں پر آنا چھوڑ دیا۔ "محکمہءِ اوقاف جس کا قیام 1958ء میں ہوا تھا، اس محکمے کے تحت کوشش یہ کی گئی کہ درگاہوں کے نام پر جو لوگوں کو یکجا ہونے کا ایک پلیٹ فارم میسر ہے اسے چھین لیا جائے۔ مولوی اور مدرسہ تو ان کے کہنے پر چل رہا تھا، مگر درگاہیں واحد ایسی جگہ تھیں جہاں آمریت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، لوگ ذہنی سکون کے لیے یہاں آیا کرتے۔
یہ درگاہیں ہی تھیں جو لوگوں کے یکجا ہونے کا ایک بڑا پلیٹ فارم تھا، جہاں لاکھوں لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی۔ حکومت کو ڈر تھا کہ کہیں یہاں سے ان کے خلاف کوئی تحریک نہ چل پڑے، اسی لیے محکمہءِ اوقاف بنا کر مداخلت کی گئی۔ محکمے میں مینیجر کے نام پر ایسے لوگ بھرتی کیے گئے جن کا مشن صرف پیسہ کمانا تھا، اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دیں۔ 60 سال سے یہی ہورہا ہے۔


وقار حسین شاہ کا کہنا تھا کہ "ہمارے پاس 2 طریقے تھے یا تو ہم حکومت سے لڑتے یا پھر مریدوں اور زائرین کو مربوط کرکے اپنا بہبود کا کام آگے بڑھاتے۔ ہم نے دوسرے طریقے کو ترجیح دی۔ شاہ لطیف فاؤنڈیشن بنائی گئی اور اس کے تحت ایمبولینس سروس شروع کی گئی جبکہ ایک مفت طبی کیمپ بھی لگایا جاتا ہے۔
"اس کے علاوہ جو زائرین یہاں قیام کرتے ہیں ان کو اوڑھنے کے لیے رلیاں فراہم کی جاتی ہیں، کیونکہ یہی کام اوقاف والے پیسوں سے کرتے ہیں، جوتے رکھنے اور باتھ روم کی سہولت تک کے پیسے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی تنظیم کے تحت جوتوں کا ٹھیکا خود لے لیا، اب ہم زائرین سے جوتے رکھنے کے پیسے نہیں لیتے اس کی ادائیگی اوقاف کو ہم خود کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے 200 درگاہوں کو اکھٹا کرکے پاکستان انٹرنیشنل مشائخ کونسل بھی بنائی ہے، جس کا صدر میں ہوں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ درگاہوں کو یکجا کیا جاسکے اور ان کا پیغام مزید مؤثر طریقے سے آگے بڑھ سکے۔
مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وقار شاہ بتاتے ہیں کہ ہماری راہ کی سب سے بڑی مشکل درگاہ سے منشیات مافیا کا خاتمہ اور انہیں یہاں سے ہٹانا تھا۔ اس کام کے لیے حکومت کی جانب سے مدد کے بجائے مشکلات پیش آئیں اور ان خاندانوں کی جانب سے بھی دشواریاں پیش آئیں جو اس میں شامل تھے۔

بہرحال ہم کامیاب رہے اور منشیات کی مافیا کو درگاہ سے ہٹا دیا، اس کام کے لیے ہمارے خلاف کئی مقدمات بھی درج ہوئے جو عدالتوں میں چل رہے ہیں اور جن کا ہم مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ ریزورٹ بنانے کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو قیام و طعام کی ایک اچھی جگہ میسر ہو۔ محققین کو کام کرنے کے لیے پُرسکون ماحول میسر ہو۔ ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے اس ریزورٹ کا نام مدن فقیر رکھا ہے۔ مدن فقیر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ہندو مرید تھا جو ان سے بہت قریب تھا، ہم نے ان کے نام پر عمارت بنا کر اس بات کا عملی مظاہرہ کیا ہے کہ درگاہوں کا پیغام رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر انسانیت کا پیغام ہے۔شاہ سائیں کی شاعری کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس میں ایک عورت سورمی یا ہیروئن ہے۔ ان سورمیوں میں نوری، سوہنی، سورٹھ، ماروی اور سسی شامل ہیں، جنہوں نے ان خواتین کرداروں کو سماج کا مضبوط کردار دکھایا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج سے 3 صدیوں پہلے شاہ سائیں نے آج کے مشہور فلسفے جینڈر اور ویمن امپاورمنٹ یا بااختیار عورت کی بات کی ہے۔ شاعری میں موجود ان کرداروں کی کہانیاں عورت کی عظمت، جرات، جذبہ حب الوطنی، محبت اور مرد کی زندگی میں ان کے اہم کردار کا بھی سبق دیتی ہیں۔ مدن فقیر ریزورٹ میں 5 کمرے تعمیر کیے گئے ہیں جو ان لازوال کہانیوں کی خواتین کرداروں کے نام سے منسوب ہیں۔ اس ریزورٹ میں جدید کمپیوٹر لائبریری اور ایک میوزک اسکول بھی کھولا جائے گا جہاں شاہ لطیف کی شاعری اور اُن کے سروں پر تحقیقی کام ہوگا، اس اسکول کی ایک شاخ نیویارک میں بھی قائم کی جائے گی۔ اس اسکول کی سربراہ تائیوان کی ایک خاتون پی لنگ ہوں گی جو شاہ لطیف کی شاعری میں ہارورڈ سے پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔

اس تقریب کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ لطیفی راگ کو خواتین گارہی تھیں۔ آج سے 300 سال پہلے ہندوستانی علاقے کچھ کی ایک خاتون مائی جیواں درگاہ پر گایا کرتی تھی، جن کے بعد غلام سکینہ وہ پہلی لڑکی ہے جس نے یہ راگ راگنیاں سیکھیں اور اُنہیں گایا، وہ شاہ لطیف کا ایجاد کردہ طنبورہ بھی بجاتی ہیں۔
خواتین گائیکاؤں کے اس گروپ میں شامل ایک نوجوان خاتون بتول فاطمہ سے ہماری بات چیت ہوئی۔ بتول مہران یونیورسٹی سے کمیونیکیشن ڈیزائن میں ماسٹرز کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں روحانی موسیقی سے شروع سے ہی لگاؤ تھا، انہوں نے جب تائیوانی خاتون پی لنگ کو راگ گاتے سنا تو بہت اچھا لگا اور یوں انہیں بھی راگ سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ وہ اپنے استاد کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ استاد منٹھار فقیر نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ لوگ اس حوالے سے بہت اعتراض کرتے ہیں کہ لطیفی راگ روحانی موسیقی ہے، اسے کوئی عورت کیسے گاسکتی ہے۔

اس حوالے سے ان کے استاد باقاعدہ لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ پی لنگ بھی راگ گایا کرتی تھیں مگر استاد منٹھار کی بیٹی غلام سکینہ سندھ کی وہ پہلی لڑکی ہے جس نے مائی جیواں کے 300 سال کے بعد لطیفی راگ گایا۔ بتول فاطمہ نے بتایا کہ مجھے یہ راگ راگنیاں سیکھنے میں بہت لطف آرہا ہے۔ شاہ سائیں کے کلام میں 31 راگ ہیں۔ ہر سر ایک الگ کہانی ہے، 7 محبت کی کہانیاں ہیں۔ صرف سُر سسئی کو 4 مختلف راگوں میں گایا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ معاشرتی دباؤ کے باوجود میرے والد نے مجھے راگ سیکھنے اور گانے کی اجازت دی اور میرے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
اس تقریب کی اہم بات رومی فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام کیا جانے والا رقص درویشاں بھی تھا، جسے دیکھ کر حاضرین وجد میں آگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ لطیف کو مولانا جلال الدین رومی سے ایک خاص انسیت تھی۔ پیر حسام الدین راشدی لکھتے ہیں کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے پاس ہر وقت قران شریف، بیان العارفین (شاہ لطیف کے دادا شاہ کریم کے ملفوظات) اور مثنوی مولانا روم ہر وقت ان کے پاس ہوتی۔ شاہ لطیف نے ان کا عمیق گہرائی سے مطالعہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری انسانیت کی بات کرتی ہے۔

شاہ عبداللطیف نے بھٹ شاہ نامی بستی کے ٹیلوں کو اپنا مسکن بنایا۔ 4 دہائیوں تک وہاں رہ کر سلوک کی منزلیں طے کیں اور پھر اسی مٹی میں دفن ہوکر اس مقام کو مرجع خلائق بنادیا۔ اُن کا کلام اس بستی کی فضاؤں میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ آج بھٹ شاہ اور ان کی شاعری دونوں آفاقی پیغام بن چکے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سندھ کو دعا دی تھی کہ اے میرے مالک سندھ کو ہمیشہ سرسبز اور خوشحال رکھناساتھ ہی پورے عالم کو آباد رکھنایہی دعا پورے پاکستان اور دنیا بھر کے لیے بھی ہے کہ اولیاء کرام کا پیغام پوری انسانیت کے لیے ہوتا ہے۔ ہم دہشت گردی کو بندوق سے ختم نہیں کرسکتے اس کے لیے انہی اللہ کے پیارے بندوں کی امن و محبت سے بھرپور تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔



بشکریہ ...... شبینہ فراز