پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں جاری عدم استحکام اور تمام تر شکوک و شبہات کے باوجود سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد آخر ہو ہی گیا۔
تمام سیاسی جماعتیں اِن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بے یقینی کا شکار تھیں مگر جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے تھے ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا تھا۔ سیاسی اتحاد بن اور ٹوٹ رہے تھے جبکہ آزاد امیدوار بھی اپنی کامیابی کے لیے رابطوں میں مصروف نظر آئے۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے امتحان کی گھڑی
انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل ہی مسلم لیگ (ن) کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب اعلیٰ عدلیہ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے اُن کے سارے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔
عدالتی فیصلہ آتے ہی سینیٹ کے انتخابات کے لیے نواز شریف کی جانب سے نامزد کیے گئے امیدواروں کا مستقبل عدم تحفظ کا شکار ہوگیا۔ راجہ ظفر الحق صاحب نے فوری طور پر نمائندوں کی نامزدگی کا اختیار رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے درخواست دائر کی جسے بھی مسترد کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے پارٹی کی پہچان اور پارٹی کا نشان تک واپس لے لیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے اُن امیدواروں کو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا میں جماعتِ اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی سے اتحاد کرکے الیکشن لڑا حالانکہ ماضی قریب میں جماعتِ اسلامی نے ہی نواز شریف کو پاناما کیس میں نااہل قرار دلوانے کے لیے درخواست دائر کی تھی، اس لیے سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے یہ اتحاد بھی کافی حیران کُن تھا۔
سینیٹ کے انتخابات سے صرف ایک روز قبل نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے 4 اراکین نے بغاوت کردی تھی جس پر مریم اورنگزیب کو کہنا پڑا کہ نواز لیگ سے دور جانے والوں کا کوئی سیاسی مسقتبل نہیں ہوگا۔
دلچسپ امر یہ بھی رہا کہ بلوچستان میں نواز لیگ اندرونی بغاوت کے باوجود 2 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی، سونے پر سہاگہ یہ کہ عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیے جانے والے اسحاق ڈار کو بھی سینیٹ انتخابات میں کامیاب کرا لیا گیا۔ اب وہ اشتہاری ہونے کی وجہ سے حلف کیسے اُٹھائیں گے اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ کیسے دیں گے؟ شاید اس حوالے سے بھی نواز لیگ نے کوئی منصوبہ بندی کر رکھی ہو۔

پیپلز پارٹی کا پلڑہ بھی بھاری
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں خلافِ توقع نتائج سامنے آئے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا نام ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے کئی رہنما لے رہے تھے اور جمشید دستی نے تو واضح طور پر بیان دیا تھا کہ آصف زرداری صاحب نے ایم کیو ایم کے بیشتر اراکین سے معاملات طے کرلیے ہیں۔
جب انتخابات کے نتائج آئے تو وہ واقعی حیران کُن تھے۔ خیبر پختونخوا میں صرف 7 ووٹ رکھنے والی پیپلز پارٹی کی اُمیدوار روبینہ خالد نے 38 ووٹ لے کر سیاسی مبصرین سمیت مخالفین کو بھی حیران کردیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے امیدوار بہرہ مند کی فتح بھی حیران کن رہی۔ جہاں مخالفین روبینہ خالد اور بہرہ مند کی فتح کو ہارس ٹریڈنگ کا ہی شاخسانہ قرار دے رہے ہیں وہیں پیپلز پارٹی اُسے آصف زرداری کی پالیسی کی فتح قرار دیتی ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال بلوچستان اسمبلی میں بھی رہی جہاں پیپلز پارٹی کا ایک بھی رُکن نہیں تھا، اُس کے باوجود پیپلز پارٹی 2 امیدواروں کو فتح دلوانے میں کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے اِس ذکرِ خیر میں کرشنا کولہی کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگا جو بلاشبہ پیپلز پارٹی کا ایک بڑا کریڈٹ ہے۔
کرشنا کولہی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی اقلیتی رُکن ہیں، وہ بچپن میں سندھ کے زمیندار کی نجی جیل میں قید رہی تھیں، پیپلز پارٹی نے اُنہیں سندھ سے ٹکٹ دے کر کامیاب کرایا اور ایوانِ بالا تک پہنچایا۔

ایک تھی ایم کیو ایم
عوام کو حیران کرنے کا سلسلہ ایم کیو ایم کی جانب سے بھی جاری رہا۔ گزشتہ 2 سال سے تقسیم در تقسیم کا شکار مُتحدہ سینیٹ انتخابات سے چند روز قبل مُحلے کی بنیادوں پر تقسیم ہوچکی تھی اور اُن کی سینیٹ الیکشن میں ایک پارٹی کے طور پر شرکت ہی مشکوک ہوگئی۔ پھر اچانک علاقہ پی آئی بی متحدہ کے قائد فاروق ستار اور علاقہ بہادرآباد متحدہ کے خالد مقبول صدیقی نے مُشترکہ پریس کانفرنس کی اور الیکشن مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان کردیا۔
مگر نتائج سے پتہ چلا کہ اندرونی اختلافات ختم ہونے کے بجائے بڑھ چکے تھے اور اب بات 2 رہنماؤں تک نہیں رہی تھی بلکہ متحدہ سے تعلق رکھنے والا ہر رُکنِ اسمبلی خود ساختہ طور پر قائد بن چکا تھا۔ 8 اراکین نے الیکشن سے ایک روز قبل بلاول ہاؤس کے ڈِنر میں شرکت کرکے بہت کچھ واضح کردیا تھا۔
اگرچہ الیکشن سے ایک روز قبل فاروق ستار نے اراکینِ اسمبلی کو اسلام آباد میں خاص طور پر بریفنگ دی مگر ووٹ ڈالنے کے لیے آتے وقت متحدہ کے اکثر اراکین اسمبلی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ آئے۔ صورتحال پولنگ کے آغاز اور ایم کیو ایم اراکین کی باڈی لینگوئیج سے ہی ظاہر ہوگئی بس شام تک آنے والے نتائج نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ایم کیو ایم پاکستان فرغ نسیم کی نشست جیت کر اُنگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے میں کامیاب ہوگئی۔ ایم کیو ایم کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک کی ان کی پہلی تاریخی بدترین شکست ہے۔

مولانا سمیع الحق کی ہار
جمعیتِ علماء اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی شکست ایسا دھچکا تھی جس پر سیاسی کھلاڑیوں کو حیرت بھی ہوئی، کہا جارہا ہے کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے مولانا سمیع الحق کی حمایت نہیں کی گئی اس لیے مولانا یہ سیٹ ہار گئے۔ اب وجہ چاہے جو بھی ہو مگر مولانا کا نشست ہارنا ایک بڑا اپ سیٹ ہے۔

فاٹا کا اپنا فارمولا
فاٹا اراکین کے حوالے سے معاملات کافی پیچیدہ چل رہے تھے، ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح بھی بنیادی طور پر فاٹا اراکین کے حوالے سے متعارف ہوئی تھی جس نے بعد ازاں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اطلاعات کے مطابق شاید ہر بار کی ہارس ٹریڈنگ سے تنگ آکر فاٹا سے تعلق رکھنے والے اسمبلی اراکین نے آپس میں ہی ایک غیر اعلانیہ معاہدہ کرلیا تھا جس کے تحت تمام ایم این ایز ہر بار اتحاد کرکے اپنے 4، 4 امیدواروں کو کامیاب کروایا کریں گے۔
اس معاہدے کے پہلے فیز پر عمل 2015ء میں ہوا تھا جبکہ دوسرے فیز پر اس بار عمل ہوا، اس لیے تحریکِ انصاف کے رہنما نے نتائج سے قبل ہی جیتنے والے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا تھا۔ مگر تحریک انصاف کے رہنما کا دعویٰ یہ تھا کہ ان امیدواروں نے سیٹ حاصل کرنے کے لیے کروڑوں روپے فی کس ادا کیے ہیں۔ اب یہ دعویٰ کس حد تک ٹھیک ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ حقیقت ضرور ہے کہ بطور فاتح انہی کا اعلان ہوا جن کے ناموں کا ذکر تحریک انصاف کے رہنما حامد الحق نے کیا تھا۔

ووٹ لوں گا ضرور مگر دوں گا نہیں
یہ تو تھی سیاسی جماعتوں اور اُن کے جوڑ توڑ اور نشستوں پر کامیابی و ناکامی کا ذکر۔ اب ذرا نظر ڈالتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں اراکینِ اسمبلی کی کس قدر دلچسپی رہی۔ عوام کو دھرنوں، ریلیوں، جلسوں جلوسوں کی صورت میں ہر وقت سڑک پر رکھنے کے خواہشمند اور ملک کو ترقی کی راہ پر استوار کرنے کا عزم دہرانے والے حزب اختلاف جماعتوں کے سربراہوں کا طرز عمل اُن کے قول سے یکسر مختلف رہا۔ سینیٹ انتخابات کے موقعے پر حزبِ اختلاف جماعتوں کے اہم سربراہان غیر حاضر رہے۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اسمبلی نہیں آئے بلکہ جب ایک رپورٹر نے اس حوالے سے سوال کیا تو جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔
اس موقعے پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے عمران خان واحد رہنما نہیں تھے بلکہ ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار، عوامی مُسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، ظفر اللہ جمالی، مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر چوہدری پرویز الہٰی نے بھی سینیٹ انتخابات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اسمبلی کا رخ نہیں کیا۔
انتخابات کا عمل مکمل ہوتے ہی سب سے پہلا نتیجہ خیبر پختونخوا سے آیا، جہاں 11 ووٹوں کی گنتی ہونی تھی، اس لیے ووٹنگ ختم ہونے کے 10 منٹ بعد پہلے نتیجے کا اعلان کردیا گیا۔
جمہوریت کے لیے پاکستان میں نہ جانے کتنی تحریکیں چلی ہیں، بے حساب جانیں قربان ہوئی ہیں، مگر ہم عوام جمہوریت کا اصل حسن دیکھنے کے لیے نسلوں سے بے تاب ہیں۔ افسوس کے ساتھ اقتدار میں آنے والی کوئی بھی حکومت آج تک انتخابی عمل کا ایسا مربوط نظام نہیں دے سکی جس سے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور عام انتخابات میں دھاندلی کو ختم کیا جاسکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شفاف انتخابات ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔