کوئی دس بارہ برس پہلے کی بات ہے۔ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کے موضوع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک سمپوزیم کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کلیدی خطبہ دینے کے لئے معروف ماہر تعلیم جناب سید حامد مرحوم کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان کی تقریر کا ایک جملہ اس دن سے آج تک ذہن سے چپکا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اول تو علمائے کرام مسلمانوں کو تعلیم کی طرف توجہ نہیں دلاتے اور اگر کبھی وہ تعلیم کی بات کرتے بھی ہیں تو ان کا روئے سخن دینی تعلیم کی طرف ہوتا ہے نہ کہ جدید علوم کی جانب۔ سید حامد مرحوم کے قول کی تصدیق اس دن ہو گئی جب میں نے برصغیر کی ایک بہت معروف دینی درسگاہ کا فتوی دیکھا جس میں فرمایا گیا تھا کہ اسلام کی نظر میں تعلیم صرف دینی تعلیم ہے اور اسلام جدید علوم کی بات سرے سے کرتا ہی نہیں۔ اسی درسگاہ نے اپنے کئی دیگر فتاوی میں یہ بھی کہا کہ ماں باپ پر بچوں کو جدید علوم یا دنیاوی تعلیم دلانا سرے سے فرض ہی نہیں ہے۔ یہی نہیں ایک فتوے میں یہ تک کہا گیا کہ جدید علوم درحقیقت علم ہیں ہی نہیں بلکہ یہ محض ہنر کے زمرے میں آتے ہیں۔
مندرجہ بالا فتاوی کو پڑھ کر طبیعت سیر ہو گئی تھی لیکن گذشتہ دنوں پاکستان میں بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے مبلغ جوکہ اپنا ایک ٹی وی چینل بھی چلاتے ہیں ان کی تقاریر انٹرنیٹ پر سننے کا موقع ملا۔ حضرت نے ایک مرید کے سوال کے جواب میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم جیسے انجینئرنگ یا میڈیکل سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب کہ اگر دینی تعلیم حاصل کی جائے تو اس میں نفع ہی نفع ہے۔
ان سطور کو پڑھتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ بات اس مسلمان قوم کے اکابرین کر رہے ہیں جو قوم تعلیم کے میدان میں پسماندگی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسے میں اس بات پر مسلسل اصرار کہ اسلام جہاں کہیں علم حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے اس سے مراد صرف دینی علم ہے اور دنیاوی علم حاصل کرنا بے کار اور غیر ضروری ہے، ہمیں بے حد خطرناک حالات کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جدید علوم کی تکذیب اب ہماری مذہبی قیادت کے ایک حصہ کے لئے معمول کی بات بن چکی ہے۔ اس سے ظاہر ہے جدید علوم کا تو کچھ نہیں بگڑ رہا لیکن مسلمانوں کو من حیث القوم ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ضرور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ عجب خوش گمانی ہے کہ ہم جدید علوم کی تکذیب میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اسے علم ہی نہیں گردانتے اور بس دینی تعلیم کو ہی علم مان کر خود کو اصل عالم مانے بیٹھے ہیں۔
جدید علوم کی افادیت پر دلیلیں دینے کے بجائے اچھا رہے گا کہ ہم ایک ایسی دنیا کا تصور کرکے دیکھیں جس میں ان علوم سے متعلق کوئی بھی شئی ہو ہی نہ۔ اس وقت شاید ہم سمجھ سکیں گے کہ دنیاوی علوم واقعی میں کتنے فالتو ہیں؟ دور کیوں جائیں، آپ ایک مدرسہ میں جدید علوم کے بغیر صبح سے شام تک کی مصروفیات کا تصور کریں۔ سب سے پہلی بات تو یہی کہ مدرسہ کہتے ہی ہمارے ذہن میں ایک عمارت کا تصور آتا ہے، عمارت سازی کا فن دنیاوی علوم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اب منظر یہ ہوگا کہ ایک بڑے سے میدان میں مدرسہ کے طالب علم سو رہے ہیں۔ چونکہ ٹیکسٹائل کا شعبہ دنیاوی علم ہے اس لئے ان طلبہ کے نیچے بچھونے اور جسم پر کپڑے بھی نہیں ہیں۔ پیروں میں جوتے چپل بھی نہیں ہو سکتے کیوں کہ یہ بھی دنیاوی علم کی دین ہے۔ نماز کا وقت ہونے پر کوئی طالب علم الارم کی آواز سے نہیں اٹھ سکتا کیوں کہ الارم دنیاوی علم کی دین ہے۔ مان لیجیے بنا الارم کے ہی ایک طالب علم جاگ گیا اور اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو جگا دیا۔ ظاہر ہے اذان کے لئے لاوڈ اسپیکر نہیں ہوگا کیوں کہ وہ بھی دنیاوی علوم سے متعلق ہے۔
وضو کے لئے بدھنیاں یا لوٹے بھی نہیں ملیں گے کیوں کہ وہ بھی دنیاوی علوم کی دین ہیں۔ اب یہ سب برہنہ جسم اور ننگے پاوں طالب علم کسی قریبی ندی یا چشمے پر وضو کرنے جائیں گے۔ واپس آکر نماز ہوگی لیکن یاد رہے صفیں زمین پر ہی بنانی ہوں گی کیونکہ چٹائی یا فرش بنانا دنیاوی علم میں آتا ہے۔ نماز سے نمٹ کر ہلکی ورزش ہو سکتی ہے اس کے بعد ناشتہ کی باری آئے گی۔ چینی چونکہ دنیاوی علوم سے چلنے والی مل میں تیار ہوتی ہے اور چائے کی پتی فیکٹری میں بنتی ہے اس لئے ان دونوں کی دستیابی ممکن نہیں۔ اب ہمارے یہ طلبہ کہیں سے بھیڑ یا بکری کے دودھ کا انتظام کریں گے، لیکن اس کو گرم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ پتیلی دنیاوی علوم سے متعلق ہے۔ گلاس بھی دنیاوی علوم سے بنی فیکٹری میں تیار ہوتے ہیں اس لئے چلووں میں یہ دودھ پی کر ناشتہ مکمل ہوگا۔ ساتھ میں پھل یا کھجور یا میوہ میسر ہو تو کھانے میں حرج نہیں۔ اب دن کی کلاسیں شروع ہوں گی۔ اساتذہ اپنے اپنے طلبہ کو گروپس میں باٹ کر میدان میں بیٹھ جائیں گے اور درس شروع ہوگا۔ درس میں کوئی کتاب نہیں ہوگی کیوں کہ پرنٹنگ پریس یا کاغذ بنانا یا سیاہی تیار کرنا یہ سب دنیاوی علوم سے متعلق ہے۔
طلبہ کے پاس کوئی نوٹ بک یا پین بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ دونوں ہی دنیاوی علوم سے آئے ہیں۔ البتہ طلبہ چاہیں تو پیڑ کی چھالوں، کھجور کے پنٹھوں اور کیلے کے پتوں پر لکڑی سے بغیر سیاہی لگائے نوٹس بنا سکتے ہیں۔ کلاسوں کا سلسلہ ختم ہوگا تو ظہر کی نماز کا وقت ہو رہا ہوگا۔ طلبہ پھر سے چشمے یا تالاب پر وضو کرکے زمین پر نماز ادا کریں گے اور پھر دوپہر کا کھانا بنانے کی تیاری ہوگی۔ چونکہ برتن دنیاوی علوم سے متعلق ہیں اس لئے کچھ طلبہ کوئی ہرن مار کر لا سکتے ہیں تاکہ اس کو آگ پر بھون کر اس کا گوشت توڑ توڑ کر کھا سکیں۔ ابھی کھانے کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک طالب علم کو الٹی ہونے لگی اب اس کے علاج کا مرحلہ آیا۔ اس طالب علم کو ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا جا سکتا کیوں کہ میڈیکل سائنس دنیاوی علم ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی طبیعت بگڑتی جائے اور پھر کوئی سینئر طالب علم یا استاد جنگل سے کوئی جڑی بوٹی لاکر اس کو پلانے کی کوشش کرے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ طالب علم ٹھیک ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ٹھیک نہ ہو سکے اور انتقال کر جائے۔ اب اس کی تدفین میں بھی مسئلہ یہ ہوگا کہ کفن کے لئے لٹھا کہاں سے لایا جائے کیونکہ ٹیکسٹائل پھر دنیاوی علم کے دائرے میں آ گیا۔
جو طالب علم بیمار نہیں ہوئے ان کے بنا کمبل سردی میں اکڑ جانے اور گرمی میں بیمار پڑ جانے یا پھر برسات میں بھیگ کر طبیعت خراب کرا بیٹھنے کے اندیشہ کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔ خیر اللہ اللہ کرکے شام ہوئی اور طالب علم عشاء کی نماز پڑھ کر میدان میں لیٹ گئے کہ اچانک تیز بارش شروع ہوئی۔ طالب علم پہلے گھنے درخت کے تلے پناہ لیں گے اور پھر کسی گپھا کو ڈھونڈیں گے جس میں سر چھپا سکیں۔ ان طالب علموں کے پاس نہ کوئی سامان ہوگا نہ صندوقچہ، نہ یہ اپنے گھر والوں کو خط لکھ سکیں گے اور نہ ہی تحصیل علم کے لئے کس کتاب یا لائبریری سے رجوع کرنے کے اہل ہوں گے کیوں کہ یہ سب باتیں دنیاوی علوم سے متعلق چیزوں کی محتاج ہیں۔ اگر کسی طالب علم یا استاد کو حج پر جانا ہوا تو کسی گھوڑے کا انتظام کرنا پڑے گا کیونکہ سفر کے جدید وسائل دنیاوی علوم کی دین ہیں۔ کپڑے چونکہ دنیاوی علوم سے متعلق ہیں اس لئے اس عازم حج کو برہنہ ہی گھڑ سواری کرتے ہوئے حجاز جانا ہوگا۔ راستے کے لئے پیسے نہیں رکھ سکتے، سوکھی غذا ساتھ نہیں لے جا سکتے، ویزا تو بالکل نہیں لے سکتے کیونکہ سب دنیاوی علوم کی دین ہیں۔ یاد رہے کہ گھوڑا سڑک یا ہائی وے پر نہیں دوڑا سکتے کیونکہ سڑکیں اور راستہ بتانے والے اشارے دنیاوی علوم نے دیے ہیں۔ راستے میں سمت کے تعین کے لئے قطب نما نہیں ملے گا البتہ سورج کو دیکھ دیکھ کر سمتیں متعین کرنے میں مضائقہ نہیں۔
اندازہ کیا آپ نے کہ دنیاوی علوم جنہیں ہمارے کچھ اکابرین علم تک نہیں مانتے اگر ان کو بیچ سے نکال دیں تو کیا صورت بنے گی؟ یہ مسجدیں، یہ تبلیغی لٹریچر، یہ انٹرنیٹ پر وعظ و نصیحت سے بھرے بیانات، یہ ٹی وی چینل پر کیلا کھانے کے شرعی طریقے، یہ اجتماع میں لگا مائیک، سر پہ لگے پنکھے، یہ سب کہاں سے ہوگا اگر دنیاوی علوم نہ ہوں۔ مختصر طور پر اتنا جان لیجیے کہ دین کی تبلیغ کا کام ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے گا اگر ان جدید علوم کو ہٹا دیا جائے۔ افسوس کہ ہم قدم قدم پر دنیاوی علوم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی مدد سے مبلغ اور داعی کے طور پر اپنی دکانیں چمکاتے ہیں۔ انہیں علوم کی مدد سے لمحوں میں اپنے اکاونٹ میں رقومات شرعی ٹرانسفر کراتے ہیں اور بعد میں انہیں جدید علوم کو فالتو بتا دیتے ہیں۔ معاف کیجئے مجھے یہ سخت بات کہنی ہی پڑے گی کہ ہماری یہ روش حقیقت سے چشم پوشی اور مسلمانوں کا مستقبل تباہ کرنے والی ہی نہیں بلکہ یہ حرکت احسان فراموشی اور نمک حرامی کے زمرے میں بھی آتی ہے۔


بشکریہ …. ملک اشتر