کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو انڈیا کے آٹھ روزہ سرکاری دورے پر ہیں لیکن اس دوران ذکر صرف خالصتان کی تحریک کا ہی کیوں ہو رہا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو کی حکومت میں چار سکھ وزیر ہیں اور ان میں سے دو کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان میں کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سجن بھی شامل ہیں جن سے گذشتہ برس پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق جب سے مسٹر ٹروڈو کینیڈا کے وزیر اعظم بنے ہیں انھوں نے سکھ انتہا پسندوں سے اپنی مبینہ قربت پر انڈین حکومت کی تشویش کو نظر انداز کیا ہے۔
کینیڈا میں سکھوں کی بڑی آبادی ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ مسٹر ٹروڈو کی انتخابی کامیابی میں سکھ برادری نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کینیڈا میں رہنے والے تمام سکھ خالصتان کی تحریک کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ مانا جاتا ہے کہ وہاں کئی ایسی سکھ تنظیمیں سرگرم ہیں جو کبھی خالصتان کے قیام کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور کبھی سنہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے۔ اس کے علاوہ کچھ سکھ تنظیمیں خالصتان کے سوال پر ریفرینڈم کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔

مسٹر ٹروڈو سنہ 2015 میں کینیڈا کے وزیر اعظم بنے تھے۔ انھوں نے گذشتہ برس ایک خالصہ پریڈ میں شرکت کی تھی جس میں آپریشن بلو سٹار میں ہلاک ہونے والے سکھ شدت پسندوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ آپریشن اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر گولڈن ٹیمپل سے شدت پسندوں کو نکالنے کے لیے کیا گیا تھا۔
انڈیا میں تاثر یہ ہے کہ سیاسی تقاضوں کے پیش نظر کینیڈا کی حکومت سکھ شدت پسندوں کی سرگرمیوں کو نظر انداز کر رہی ہے اور جب خود مسٹر ٹروڈو ان کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں تو یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ انڈیا کے تحفظات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ان کی حکومت میں چار سکھ وزیر ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکھوں کی حمایت کو وہ کتنا اہم مانتے ہیں اور اس لیے وہ طاقتور سکھ برادری کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔کینیڈا کے 16 گردواروں نے گذشتہ دسمبر انڈین اہلکاروں، سفارت کاروں اور یہاں تک کہ منتخب نمائندوں کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ میں بھی تقریباً 100 گردواروں نے اس پابندی پر عمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گردواروں کا کہنا ہے کہ وہ فسادات کے ملزمان کو سزائیں دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انڈین حکومت کی جانب سے اس سمت میں کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے اس لیے حکومت کے نمائندوں کے داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم وہ اپنی نجی حیثیت میں گردواروں میں جا سکتے ہیں۔انڈین پنجاب میں سنہ 1980 کے عشرے میں علیحدگی کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ سکیورٹی امور کے ماہر پروین سوامی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ خالصتان کی تحریک کا اچانک دوبارہ ذکر شروع ہوا ہے کیونکہ بیرون ملک آباد بہت سی سکھ تنظیموں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں۔

انڈیا میں اخبارات اب ان خبروں سے بھرے ہوئے ہیں کہ کس طرح حکومت نے جسٹن ٹروڈو کے دورے کو نظر انداز کر کے انھیں ایک واضح پیغام دیا ہے۔
انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے ایک اداریہ میں لکھا ہے کہ اگر مسٹر ٹروڈو یہ چاہتے ہیں کہ انڈیا اور کینیڈا کے رشتے مضبوط ہوں تو انھیں انڈیا کے تحفظات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، صرف یہ بیان دینا کافی نہیں ہے کہ کینیڈا ایک مضبوط اور متحد انڈیا کے حق میں ہے۔مسٹر ٹروڈو اپنے انڈین ہم منصب سے جمعے کو مذاکرات کریں گے اور نگاہیں اس بات پر ٹکی رہیں گی کہ اس کے بعد پریس بریفنگ میں اس تنازع کا براہ راست ذکر کیا جائے گا یا نہیں۔