اچار، چٹنی اور مربہ۔ ان تینوں کا عجب ساتھ ہے۔ دو چٹپٹے اور ایک میٹھا پھر بھی ساتھ ہی کہلائے گا۔
ہندوستانی کھانوں میں اچار اور چٹنی کا اہم کردار ہے۔ ہر خطے میں ان کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔ شکل بدل جاتی ہے، نام بدل جاتا ہے اور ذائقہ بھی۔ہندوستان کا جنوبی حصہ اچار اور چٹنیوں کے معاملے میں صفِ اول میں شمار ہوتا ہے۔ جنوبی ہند کی پرانی کتابوں میں ان کا ذکر خوب ملتا ہے۔ہندوستان کے مرکزی علاقے کلیان کے راجہ سومیشور کھانے پینے کے شوقین تھے۔ انھوں نے سنہ ١١٣٠ میں 'مانا سولاسا' نامی کتاب لکھی جس میں شاہی مطبخ میں تیار کی جانے والی غذاؤں، بطور خاص چٹنی اور اچار کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'چٹنی کھانے کو چٹپٹا بناتی ہے اور اچار تیکھا پن۔ان کے مطابق دہی، پھلوں کے رس، مسالہ جات اور تیل کو ہلکی آنچ پر پکا کر چٹنی تیار کی جاتی تھی۔ چاول خمیر آ جانے کے بعد بطور چٹنی کھایا جاتا تھا۔









١٦ویں صدی میں تصنیف کردہ کتاب 'پدماوت' میں بھی شاہی ضیافتوں میں کئی طرح کی چٹنیوں اور اچار کا ذکر ملتا ہے۔
نارنگی کے رس اور کھانے والے کپور کے امتزاج سے چٹنی بنانے کا ذکر دلچسپ ہے۔ ان کتابوں میں مختلف طریقوں سے چٹنی بنانے کا بھی ذکر ہے۔ بغیر پکائے، پانی میں ابال کر، تیل میں پکا کر، بغیر تیل یا پانی کے، آگ پر پکا کر وغیرہ۔ہندوستان کے ہر خطے میں چٹنی اور اچار وہاں کی پیداوار سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ چٹنی اور اچار زمانۂ قدیم سے ہندوستان میں موجود ہیں۔مغلیہ سلطنت نے جہاں کھانوں کو ایک فن کی صورت دی وہیں چٹنی بھی ان کی نظروں سے نہ بچ سکی۔

ابوالفضل نے 'آئین اکبری' میں چٹنی، اچار اور مربے کا بھی مفصل ذکر کیا ہے۔ مغل دور مین چٹنی ترکاریوں کے علاوہ تازہ پھلوں سے بھی بننے لگی اور ان میں خشک میووں کے استعمال نے نیا ذائقہ بھر دیا۔ بادشاہ کے خاصے میں چٹنی، اچار اور مربے کے پیالے سرخ مہین کپڑوں سے ڈھکے بڑی نفاست سے پش کیے جاتے تھے۔




اچار کے بارے میں دیسی الفاظ اور مہاوروں کی ڈکشنری 'ہابسن جابسن' میں لکھا ہے کہ یہ پرتگالی طبیب کی ایجاد ہے۔ لیکن یہ ہندوستان میں ہزاروں سال سے موجود ہے کیونکہ سنہ 1594 کی تصنیف کردہ ایک کتاب میں انواع و اقسام کے اچار کا ذکر ہے۔اچار اصلا سردیوں کے لیے مخصوص غذا تھی، طویل بحری سفر کا ساتھ تھی، پھلوں اور ترکاریوں کو دھوپ میں خشک کیا جاتا تھا اور پھر نمک یا اس کے پانی میں ڈبوکر بڑے مرتبانوں میں اندھیری جگہ رکھ دیا جاتا تھا۔ کئی ہفتوں میں جب خمیر اٹھ جاتا تو ٹھنڈے کمرے میں منتقل کر کے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔
نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اچار سے متعلق دلچسپ حکایتیں ملتی ہیں۔ عیسائیوں کی الہامی کتاب انجیل میں اس کا ذکر ہے۔ ارسطو اسے تندرستی کا راز بتاتے ہیں، نپولین اس کی تائید کرتے ہیں، قلوپطرہ اپنے حسن کو نکھارنے کے لیے اسے استعمال کرتی تھیں جبکہ 13ویں صدی کے بادشاہ جون کی ضیافت میں اچار بطور خاص ہوتے تھے۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی میز پر 476 قسم کے اچار ہوتے تھے۔





دوسری جانب مربہ چٹنی اور اچار کا ساتھی ضرور ہے لیکن مزاج، ذائقے اور شکل و صورت میں مختلف ہے۔
مربہ وسط ایشیا سے مغلوں کے ہمراہ ہندوستان پہنچا اور یونانی طبیبوں کے ہاتھوں صحت اور تندرستی کا اہم آلہ کار بن گیا۔ وسط ایشیا میں چائے کی میز پر مربے کے خوبصورت مرتبان نہ صرف دلفریب نظر آتے ہیں بلکہ خوش ذائقہ، خوش رنگ اور مفید بھی ہوتے ہیں۔آذربائیجان اور وسط ایشیا کے بعض علاقوں میں پھلوں اور ترکاریوں سے بنے مربے سردیوں میں زکام کا بہترین علاج ہیں۔ترکی میں مربہ بنانے کے علیحدہ شعبے ہیں جہاں تازہ پھلوں کے رس کو نچوڑ کر دھوپ میں خشک کرنے کے بعد سال بھر کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ وسط ایشیا اور مشرق وسطی میں پھلوں کی کثرت ہے اور موسم ختم ہونے سے قبل ان کو مربے کی شکل میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔



آذربائیجان میں ہرسال اگست کے مہینے میں بین الملکی مربہ فیسٹیول منعقد ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا سنہ ٢٠١٣ میں ہوئی اور اب بڑی کامیابی سے یہ جشن آذربائیجان کے کوہستانی علاقے قبالا میں منایا جاتا ہے۔
ہر سال آذربائیجان کی وزارت سیاحت اور نیشنل کلینری ایسوسی ایشن کے اشتراک سے منعقد کیا جاتا ہے جس میں ترکی، روس، ایران، کرغستان اور ہمجوار کے علاقے سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں اور انواع و اقسام کے مربوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔عصر حاضر میں مربہ دنیا بھر میں بڑے شوق سے کھایا جاتا تھا۔ گھروں میں مربہ بنانے کا رواج تو قصۂ پارینہ ہے البتہ دکانیں اس سے سجی ہوئی مل جاتی ہیں۔




یونانی ادویات بنانے والی معروف ہمدرد کمپنی کے بانی حکیم عبدالحمید کا کہنا تھا کہ ایک چائے کا چمچہ آنولے کا مربہ نہار منھ کھائیے تو کسی ملٹی وٹامن کی ضرورت نہ ہوگی۔