عمدہ شیئرنگ کا شکریہ
دین کا احترام اپنی جگہ پر ہے ان کے کہنے یا کرنے پر برا ضرور کہنا چاہیئے
ہم بہت فارغ قوم ہیں بخدا ہمیں کوئی موقع، کوئی موضوع ملنا چاہیے پھر دیکھیے ہم کیسے کیسے نکتے اٹھاتے ہیں کیونکہ ہم سے بڑا علامہ، ہم سے عظیم مولانا نہیں کوئی موقع محل نہیں دیکھتے، خوشی کا لمحہ ہو یا کوئی حادثہ ہماری لن ترانیاں شروع ہو جاتیں ہیں کیونکہ ایک فارغ قوم کا کام کیا ہے یہی الفاظ کی الٹیاں۔ رائے زنی کے ہم ماہر ہیں کسی کو پاس سے جانے بغیر دور سے ہی رائے قائم کر لیتے ہیں کہ فلاں کا فلاں کے ساتھ چکر ہے، یا فلاں اچھے کریکٹر کا نہیں، اور تو اور اس کے مذہبی تشخص کے بارے میں بھی حتمی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ہر ترقی کرتے شخص پر دل میں سوچ کر الزام لگا دیتے ہیں کہ ضرور کوئی غلط کام کیا ہوگا جب ہی اتنا آگے جارہا ہے، سو منہ سو باتیں بن جاتیں ہیں لیکن کوئی تصدیق کرنے کی کوشش نہیں کرتا بس منہ سے تھوک اڑا دیا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک مشہور خاتون وکیل کا انتقال ہوا، ان کی موت سے لے کر ان کے جنازے تک وہ وہ گوہر افشانیاں ہوئیں کہ مرحومہ زندہ ہوتیں تو منہ توڑ جواب دیتیں۔ وہ اپنی ذات میں جو بھی تھیں وہ ان کا فعل ہے ہم کون ہوتے ہیں ان کے اعمال کو پرکھنے والے، زندگی میں ان کی ذات موضور بحث بنی رہی مرنے کے انتقال کے بعد ان کی موت موضوع سخن بنی ہوئی ہے ان کے والی وارث موجود تھے جب انھوں نے مخلوط نماز جنازہ پر اعتراض نہیں کیا تو ہم آپ کون، نہیں جناب بولنا تو ہے چاہے آپ کو درست معلومات ہوں یا نہیں، آپ سب اپنے اپنے فتوے دے رہے ہیں، پہلے اپنی معلومات اپنا علم تو پکا کر لیں تب بات کریں۔ ہزار منہ ہزار باتیں، جانے والی تو چلی گئی اور جو اس دنیا سے چلا گیا وہ ہم سے بہتر ہے۔پیارے نبیؐ کا فرمان تو ہے کہ اپنی آنکھوں سے برا ہوتے دیکھو تب بھی برا گمان نہ کرو۔ بیٹھے بٹھائے ویلنٹائن ڈے کو یوم حیا کا نام دے دیا کہ یوم حیا مناؤ لوکرلو گل۔ آپ کو یوم حیا منانا ہے تو اس دن مناؤ جس دن شریفاں کوع برہنہ کرکے سر بازار گھمایا گیا۔ اس دن کو یوم حیا منانا جس دن زینب کے قاتل اور زیادتی کرنے والے کو سزا ہو۔ آپ کو پسند نہیں ویلنٹائن نہ منائیں لیکن بلاوجہ کو توجیہات دے کر اپنی مرضی تو نہ تھوپیں۔ ایک مسلمان کا تو ہر دن یوم حیا ہونا چاہیے کیونکہ حیا ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن انتہا پسندی کہیں نہیں۔ اچھی طرح سے جسم ڈھانپا ہوتو عبایا کی ضرورت بھی نہیں رہتی، ہم کون ہوتے ہیں بغیر عبایا خواتین کے بارے مین اپنے خیالات کا اظہار کریں ہوسکتا ہے وہ ہم سے بہتر مسلمان ہو لیکن چونکہ ہم فارغ ہیں اس لیے اپنی چونچ ضرور کھولیں گے۔کسی بھی بات کو لے کر ہماری قوم ایسے رد عمل دکھاتی ہے جیسے چندی سے سانپ بنایا جاتا ہے۔ کیا تمام مسائل حل ہوچکے ہیں، تعلیم عام ہوگئی ہے، لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھارہے ہیں، پینے کو صاف پانی مل رہا ہے، ہسپتالوں میں مفت علاج ہورہا ہے، بنیادی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں۔ غریب غریب نہیں رہا ہر طرف سکون ہے۔ نہیں پھر ان موضوعات پر بات کیوں نہیں کرتے کیوں نہیں سب مل کر آواز اٹھاتے، کہ دوائیں اتنی مہنگی ہوگئیں، بچوں کے ٹیکے ہسپتالوں میں دستیاب نہیں۔ پینے کو صاف پانی نہیں مل رہا، کچرا کچرا ہر طرف ہے کیا اس پر بات نہیں کر سکتی یہ فارغ قوم، نہیں یہ بات نہیں بلکہ بے حس ہوچکے ہیں ہمیں ادھر ادھر کی باتوں میں الجھایا جاتا ہے تاکہ بنیادی مسئلے حل نہ کرنے پڑ جائیں۔ کیا کسی سیاسی جماعت میں ہمت ہے یہ مسئلے حل کروا دے نہیں صرف زبانی کلامی جمع خرچ ہوتا ہے اور ووٹ ملنے کے بعد یہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اے بے حس قوم سدھر جاؤ اور اپنے مسائل کے لیے کھڑے ہو تاکہ تمھارے زندہ رہنے کا جواز پیدا ہوسکے ورنہ ایک مردہ جسم اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
عمدہ شیئرنگ کا شکریہ
دین کا احترام اپنی جگہ پر ہے ان کے کہنے یا کرنے پر برا ضرور کہنا چاہیئے
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks