SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 5 of 5

    Thread: مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات: قہقہوں بھری چن

    Threaded View

    1. #1
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      smartguycool's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Posts
      616
      Threads
      448
      Thanks
      102
      Thanked 493 Times in 328 Posts
      Mentioned
      127 Post(s)
      Tagged
      61 Thread(s)
      Rep Power
      7

      مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات: قہقہوں بھری چن

      ادھر کچھ ماہ قبل ایک شوخ چنچل لڑکی ہمیں ملی۔ آدھ پون گھنٹے کی گفتگو کے بعد کہنے لگی کہ یوسفی صاحب! بات چیت میں تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں مگر تحریر میں بالکل لچّے لگتے ہیں۔
      (مشتاق احمد یوسفی)
      صاحبو! یہ جملہ ان درجنوں قہقہہ آور غیر مطبوعہ جملوں میں سے ایک ہے جو ہم نے یوسفی صاحب سے ملاقات کے دوران انہی کی زبانی سنے اور آپ کو سنانے والے ہیں۔ جب برسوں پرانے کسی خواب کی تعبیر مل جائے تو انسان خوشی سے گنگ، حیرت سے گم سم اور بے یقینی سے ہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی سے مل کر ہم پر یہ تینوں شدتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔ یہ کہنے میں کیا تکلف اور تامل کریں کہ یوسفی نے ہمارے بچپن کی گھنگھور اداسیوں کو سہلایا، نوجوانی کے گھٹا ٹوپ شب و روز کو گرمایا اور گنجلک آلامِ روزگار کو آسان بنایا ہے! ہم ان سے ملے بغیر ان کے ان گنت احسانوں تلے دبے تھے۔ سو جب ملے تو ہمارا ساکت و ششدر رہ جانا ہی بنتا تھا۔
      معروف و بےمثال شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر کا یہ احسان شاید ہم ساری زندگی نہ چکا پائیں کہ انہوں نے ہمیں یوسفی سے ملوایا۔ حسیب بھائی یعنی عنبر کے شوھرِ نامدار بھی ہمراہ تھے۔ ہم گھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر پہنچے تو دروازے پر ایک عدد جیّد کتے کو چشم براہ پایا۔ دیدہ و دل ہی نہیں بلکہ دندان و دم بھی فرشِ راہ کیے بیٹھا تھا۔ یوسفی کا مرحوم کتا (اللہ بخشے) سیزر یاد آگیا۔ یہ موجودہ سگ اس تاریخی سیزر کا سگا پڑپوتا ہے شاید۔ اس کا نام البتہ یوسفی نے زار رکھ چھوڑا ہے۔ واضح رہے کہ یہ زار و قطار رونے، آہ و زاریاں کرنے یا پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں والا زار نہیں، روسی شہنشاہوں والا زار ہے۔ نام تو تھا ہی شہنشاہوں والا، عادات بھی ہوبہو ویسی ہی تھیں۔ دم سادھے فرش پر یوں پڑا تھا جیسے تخت پر نشئی بادشاہ۔ جو ناخلف دکھائیں سو ناچار دیکھنا
      کتے نے (کہ جس کو کتا کہنا بدتہذیبی ہوگی) انگڑائی لی تو عنبر سہم کر کہنے لگیں کہ ارے ارے دیکھیے! ہمیں ہی کاٹنے کی تیاری کر رہے ہیں یہ۔ خانساماں نے آکر ترنت اس ناہنجار کو طوق در گلو کیا تو ہماری گلوخلاصی ہوئی اور ہم اندر گھسے۔
      یوسفی کے گھر کے ڈرائینگ روم سے جمالیات کا ہر پہلو ہویدا تھا۔ روشنی، رنگ، خوشبو، مصوری، موسیقی، مجسمے اور محبت! ہر شے ترتیب سے رکھی ہوئی۔ یوسفی داخل ہوئے تو ہم سمیت سب اسبابِ جمالیات نے تعظیم سے استقبال کیا۔ شلوار قمیص میں لپٹا چھیانوے سالہ انتہائی لاغر و نحیف جسم، ستا ہوا مگر ہنستا مسکراتا مطمئن چہرہ، آواز ایسی موہوم، ملائم اور مدہم کہ کان لگائے بغیر سننا مشکل (ہم تو خیر ان کے حرف حرف کے لیے ہمہ تن گوش تھے)۔ اٹھک بیٹھک اور چلت پھرت میں نقاھت مانع تھی مگر جب بولنے لگے تو چست و چاق و چوبند چٹکلے تھے کہ رنگ برنگ پھلجھڑیوں کے مانند ان کے لبوں سے پھوٹ رہے تھے۔ باتیں ایسی کہ مارے خوشی کے دل دو پھانک ہوجائے۔ آتے ہی وہ صوفے پر بیٹھ گئے تو ہم بھی ہاتھ باندھے دھڑکتے دل لیے بیٹھ گئے۔
      کمرے میں ایک دم گھمبیر خاموشی چھا گئی۔ ہم نے سوچا شاید لیجنڈ کی موجودگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کافی دیر تک یوسفی ٹکٹکی باندھ کر فرش کو اور ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے نگاہ اٹھائی اور عنبر سے کہنے لگے، بھئی آپ کے جوتے بہت خوبصورت ہیں۔ عنبر اس غیرمتوقع جملے (حملے) کی تاب نہ لاکر شکریہ ادا کرکے ہنسنے لگیں۔ یوسفی بولے: آپ ہی کی عمر کی ہوں گی وہ لڑکی جو ہم سے ملیں۔ ڈاکٹر بن رہی تھیں شاید۔ رخصت ہوتے وقت اٹھلا کر کہنے لگیں کہ یوسفی صاحب! ایک بات تو بتائیے۔ آپ جیسے عمررسیدہ مرد جب مجھ جیسی نوجوان لڑکیوں سے ملتے ہیں تو جاتے جاتے یہ کیوں کہتے ہیں کہ بھئی! ملتی رہا کرو۔
      اب قہقہوں کا دور شروع ہوا۔ ہم نے ازراہ تلطف پوچھا کہ سرکار! آج کل طبیعت کیسی ہے؟
      کہنے لگے، میاں! اپنے آپ پر پڑا ہوں۔ زندگی میں تو غم سے چھٹکارا نہیں ملنے کا۔
      ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں! غالب نے بھی یہی کہا تھا کہ قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں۔
      ایک دم سنبھل کر بیٹھ گئے اور بولے کہ نہیں! قیدِ حیات و بنتِ عم اصل میں دونوں ایک ہیں۔
      ایک اور قہقہہ لگا۔ ہم نے کریدنے کی خاطر پوچھا کہمرشد! آپ کی کتابوں میں سے کون سی آپ کے دل کے بہت نزدیک ہے؟
      آنکھوں میں شرارت بھری چمک لیے بولے کہ کتابوں کی تو خبر نہیں البتہ کچھ چہرے ضرور دل کے نزدیک ہیں جن کا نام لینے میں ہمیں تکلّف ہے۔
      جملے کی داد دیجے، صاحبو! ایسے جملے بولنے والے اب ایک ہاتھ کی ایک انگلی پر گنے جاسکتے ہیں۔ یوسفی کے معاملے میں ہم ایک سے آگے کی گنتی کے قائل نہیں کیونکہ ان کا کوئی ثانی ہے ہی نہیں۔
      ہم نے سگِ زار کا ذکر چھیڑا کہ ماشا اللہ سے بہت صحت مند، چوکس اور ہوشیار کتا ہے۔ اللہ نظرِ بد اور مست ماداؤں سے بچائے۔
      سوچ میں پڑ گئے۔ پھر فرمایا: ایک فرانسیسی ادیبہ کا قول ہے کہ مَیں مردوں کو جتنا قریب سے دیکھتی ہوں، اتنا ہی مجھے کتے اچھے لگتے ہیں
      اس سے پہلے کہ ہمارا فلک شگاف قہقہہ ان کی سماعت پر گراں گزرتا، بولے: مرزا کے ایک دوست ہیں جو کتیا کو کتیا نہیں کہتے، ازراہِ احترام و عقیدت فی میل کہتے ہیں۔ مرزا کو جب سے اس بات کی خبر ہوئی ہے وہ بھی احتیاطاً اپنی بیگم کو فی میل کہنے لگے ہیں۔
      بلند بانگ قہقہے ذرا تھمے تو یوسفی پینترا بدل کر عنبر سے پوچھنے لگے آپ کہاں ہوتی ہیں؟ اور کیا شغل فرماتی ہیں؟
      عنبر نے بتایا کہ ہم کراچی ہی میں ہوتے ہیں اور شاعری کرتے ہیں۔ نسیان کے باعث یوسفی بار بار بھول جاتے تھے کہ وہ عنبر سے یہ سوال پہلے پوچھ چکے ہیں لہٰذا اگلے ڈھائی گھنٹے میں بہت معصومیت سے بہتیری بار یہ سوال پوچھا اور ہر بار عنبر نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ اور تو اور لچّے والے جملے سے بھی ہم بارہا شاد کام ہوئے اور یوسفی کے انداز و ادا کچھ ایسے شاداب ہیں کہ ہربار پہلے سے زیادہ ہنسی آئی۔
      ایک بار تو ہم نے جی کڑا کر کے پوچھ ہی لیا کہ مرشد! جس لڑکی نے آپ کو لچا کہا، آپ اس پر برہم نہیں ہوئے؟
      معصوم سی شکل بنا کر کہنے لگے:نہیں، میاں! کہتی تو وہ ٹھیک ہی تھی
      پھر کمرے کے اطراف و اکناف پر ایک یوسفیانہ نظر ڈال کر بولے کہ وہ سامنے راجھستانی آرٹ کے دو نایاب نمونے ہیں۔ راجھستانی راجہ اور رانی کی ایسی انوکھی شبیہیں جو منّے منّے موتیوں سے بنائی گئی ہیں۔ ہماری کتاب آبِ گم کا ہندی میں ترجمہ ہوا۔ پبلشر موصوف ہم سے ملنے آئے تو کہنے لگے کہ یوسفی صاحب! رقم کی صورت میں نذرانہ تو ہم دے نہیں پائیں گے سو یہ دو نادر پینٹگز نذر ہیں۔ گر قبول افتد وغیرہ۔ سو ہم نے رکھ لیں کہ نہیں جو مال میسر، مصوّری ہی سہی۔
      ہم نے قریب سے جاکر مصوری کے وہ شاہکار دیکھے۔ واقعی شاہکار تھے۔ واپس آکر صوفے پر بیٹھے تو یوسفی کہنے لگے کہ آئل پینٹنگ اور ادھیڑ عمر عورت دور ہی سے دیکھنے پر اچھی لگتی ہیں
      ہم اس جملے کی ادھیڑ بن میں گم تھے کہ عنبر نے پوچھ لیا کہ یوسفی صاحب! آج کل آپ انٹرویو دیتے ہیں کیا؟
      بولے: کچھ دن قبل ایک محترمہ انٹرویو لینے آ دھمکیں۔ پہلا سوال ہی یہ کیا کہ یوسفی صاحب! آپ نے کبھی عشق کیا ہے؟ ہم نے کہا: بی بی ابھی تو آپ ٹھیک سے بیٹھی بھی نہیں اور یہ مطالبہ؟
      ہنس ہنسا چکنے کے بعد ہماری باری تھی کچھ کہنے اور (کھری کھری) سننے کی۔ سو ہم نے پوچھ لیا کہ آج کل کیا مصروفیات ہیں؟
      کہنے لگے کہ میاں! انسان اس وقت تک کلچرڈ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی ہی کمپنی سے محظوظ ہونا نہ سیکھ لے۔ ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
      ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ مرشد! آپ ہی نے لکھا ہے کہ کلچرڈ آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ مارلین منرو کے سراپا کی گولائیوں کو ہاتھ ہلائے بغیر بیان کرسکے۔
      کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ اتنے میں عنبر نے پوچھا کہ یوسفی صاحب! پھلوں میں کیا پسند ہے؟
      بولے: ڈرائی فروٹ۔ خاص کر نکاح کا چھوارا۔ ویسے تو مونگ پھلی بھی پسند ہے مگر مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے
      تھوڑا سا ہنس ہنسا کر بولے: بھئی آجکل مونگ پھلی پھانکنے کا وقت کس کے پاس؟ اب تو کمپیوٹرائزڈ تیزرفتار دور ہے۔ ہماری یہ حالت ہے کہ ایک اچھا جملہ تین چار دن تک نہال اور سرشار کیے رکھتا ہے
      ڈیڑھ گھنٹے کی لذت آمیز و قہقہہ آور گفتگو کے بعد ہم اور عنبر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اٹھنے کے اشارے کرنے لگے کہ یوسفی زیادہ دیر بیٹھ کر کہیں تھک نہ جائیں سو ہمیں چلنا چاھئے اب۔
      یہی بات ان سے کہی تو بولے: بھئی جانے کا کوئی اور بہانہ تلاش کرو
      عنبر بولیں کہ یوسفی صاحب! ہم تو جانے کا نام نہیں لیں گے۔ آپ ہی کی تھکان کا خیال ہے
      جواب میں عنبر سے کہنے لگے: بھئی آپ کی قمیص بہت خوبصورت ہے۔ (پھر ہلکے سے توقف کے ساتھ) اب ہم قمیص سے دھیرے دھیرے شمال کی جانب جائیں گے۔ (ھلکی سی مسکراھٹ کے ساتھ) یہ قمیص اتنی خوبصورت ہے کہ ہمارا بھی ایسے کپڑے پہننے کو دل چاہ رہا ہے۔
      یوسفی اب مکمل چارج ہوچکے تھے۔ عنبر نے پوچھا کہ اپنی کمپنی انجوائے کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
      بولے: ایسے دوست بنائیے اور ایسی کتابیں پڑھیے کہ جو آپ کو سوچنے کی تحریک دیں
      عنبر بولیں اور اگر ایسے دوست نہ ہوں تو؟
      ایسی حالت میں عام طور سے لڑکیاں شادی کرلیتی ہیں

      حسیب بھائی کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ ہم نے کہنی سے ٹہوکا دیا کہ کچھ کہیے تو کہنے لگے کہ یوسفی صاحب! ہم نے اور عنبر نے شادی تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا
      یوسفی بولے: پرانے زمانے میں بھی دلہا دلہن کو ایک دوسرے کے چہرے آئینے میں دکھانے کی رسم (آرسی مصحف) نکاح کے بعد ہوا کرتی تھی۔ نکاح سے پہلے چہرے دکھانے میں کسی ایک یا دونوں فریقوں کے بدکنے اور نکاح کینسل ہوجانے کا ڈر تھا
      ہم نے ہنستے ہوئے کہا حالانکہ آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ نکاحِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
      کہنے لگے: بھئی ہمارے ہاں کراچی میں مردِ مومن کو مردِ میمن کہا جاتا ہے
      باتوں باتوں میں انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا اور زبیدہ آپا کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ زبیدہ آپا کو دال بگھارنے کی رائلٹی ملتی ہےجبکہ ہمیں شیخی بگھارنے کی
      قہقہے لگ چکے تو ہم نے پوچھا کہ آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟
      ھلکے سے تبسم کے ساتھ فرمایا: انگریزی ادب زیرِ مطالعہ ہے۔ کیونکہ اردو کا فکشن اور بیشتر ناول ایسے ہیں کہ بندہ بیوی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا
      حسیب بھائی دوبارہ گفتگو میں تشریف لائے: یوسفی صاحب! آپ کو کونسا موسم اچھا لگتا ہے؟
      فرمایا: اپنے اندر کا موسم۔ اس سے جڑ جائیں تو باہر کی گرمی سردی کی کیا فکر
      پھر عنبر سے کہنے لگے: اقبال کا مصرعہ ہے کہ گوہرِ تابدار کو اور بھی تابدار کر۔ اس میں آپ گوہر کے لفظ کو شوہر سے بدل کر اپنے شوہر کو سنا سکتی ہیں
      ھر ہر جملہ ایسا تھا کہ قربان جائیے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ نے اپنی تمام تصنیفات میں کھانے پینے کا بہت ذکر کیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
      کہنے لگے: لڑکپن اور جوانی میں جب بدمعاشی کے تمام ذرائع بزرگوں نے بند کردیے تو کھانا پینا ہی بچا تھا

      عنبر نے موقع دیکھ کر کہا کہ فارس! بہت باکمال شاعر بھی ہیں
      ہمیں دیکھ کر کہنے لگے: میاں! کچھ ہوجائے پھر؟
      ہم ایک دم گڑبڑا گئے، کہاں یوسفی جیسا نابغۂ روزگار، کہاں ہماری تک بندیاں۔ عرض کی کہ یوسفی صاحب! اب آپ کو بھلا ہم کیا سنائیں
      کہنے لگے: اچھا! تو آپ ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے
      ہم نے ڈرتے ڈرتے تین شعر پیش کیے۔ پہلے دو پر بھرپور داد دی جو تاعمر ہمارا اثاثہ رہے گی۔ شعر یوں تھے

      خوشبوئے گل نظر پڑے، رقصِ صبا دکھائی دے
      دیکھا تو ہے کسی طرف، دیکھیے کیا دکھائی دے
      تب مَیں کہوں کہ آنکھ نے دید کا حق ادا کیا
      جب وہ جمالِ کم نما دیکھے بِنا دکھائی دے

      تیسرا شعر پڑھا تو یوسفی نے ایک تاریخی جملہ کہا۔ شعر تھا کہ
      دیکھے ہوؤں کو بار بار دیکھ کے تھک گیا ہوں مَیں
      اب نہ مجھے کہیں کوئی دیکھا ہوا دکھائی دے

      شعر سن کر مسکرائے اور فرمایا: بھئی! مردوں کی بدنیتی کی کیا خوب شاعرانہ تاویل لائے ہیں آپ ہم عش عش کر اٹھے حالانکہ غش کھانے کا مقام تھا۔
      ڈھائی گھنٹے کی نشست کے بعد بھی یوسفی کے وہی چہچہے تھے، وہی ہمھمے اور وہی ولولے۔ ہم نے یوسفی کے ساتھ ڈھیر ساری تصاویر بنائیں اور رخصت چاھی۔ اٹھتے اٹھتے عنبر نے مشہور جملہ داغنے کی کوشش کی کہ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں زندہ ہیں۔
      کہنے لگے: جو کہتا ہے کہ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں زندہ ہیں وہ خود کو زلیخا سمجھتا ہے
      ہم قہقہے لگاتے اٹھے اور کمرے سے دالان تک آنے کے لیے مرشد کو اپنے کاندھے کا سہارا پیش کیا۔ ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دوسری طرف کھڑی عنبر سے کہنے لگے: بھئی! آپ بھی تو سہارا دیجے
      پھر عنبر کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے: ہماری عمر میں لاکھوں میں سے ایک آدھ مرد میں شرارت اور بدمعاشی بچتی ہے۔ ہم وہی ایک آدھ ہیں
      رخصتی قہقہے سے ان کے گھر کا دالان گونج اٹھا۔ ہم بے اختیار یوسفی صاحب کے گلے لگ گئے۔ پاؤں چھوئے۔ عقیدت آنسو بن کر آنکھوں سے جاری تھی۔ مشتاق احمد یوسفی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں مگر ہم ان کے خاص الخاص عاشق ہیں۔ مولائے سخن ان کو عمرِ خضر عطا فرمائے کہ ریاکار لکھاریوں، شاعر نما مداریوں اور شہرت کے پجاریوں کے دور میں یہ شخص سَچّا، سچّا، کھرا اور خالص فنکار ہے
      ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
      تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، ات ہم نفَسو! وہ خواب ہیں ہم


      بشکریہ .. رحمان فارس



    2. The Following 2 Users Say Thank You to smartguycool For This Useful Post:

      intelligent086 (02-13-2018),Ubaid (02-13-2018)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •