intelligent086 (02-13-2018),Ubaid (02-13-2018)
جو بات قبائلی شاید اپنے سائے سے بھی کرتے ڈرتے تھے وہ انھوں نے بلا آخر اسلام آباد کی سڑکوں پر ببانگ دہل کہہ دی۔ قومی پریس کلب کے باہر دس روز کے منفرد پرامن احتجاج نے پختونوں بالخصوص قبائلیوں کے لیے ایک نیا سیاسی راستہ کھول دیا ہے۔ یہ یقیناً ماضی کے بہادر، غیور اور جنگجو صفت قبائلی کہلوا کر استعمال کی گئی اس قوم کو بظاہر پہلی مرتبہ ایک زبان دے گیا۔
راؤ انوار قانون کی گرفت میں آتے ہیں یا نہیں لیکن ان کے مبینہ ماورائے اقدام قتل نے قبائلیوں خصوصا ان کے منظور احمد پشتین جیسے نوجوانوں کو بیدار کر دیا ہے۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر شور ڈال کر اس احتجاج کی بنیاد رکھی اور بالا آخر وزیر اعظم سے تحریری یقین دہانی حاصل کرکے جزوی کامیابی بھی حاصل کر لی۔ مکمل کامیابی کا انحصار یقیناً اب ریاست پر ہے کہ وہ کتنی جلد مطالبات پر عمل درآمد کرتی ہے۔دھرنے کے منتظمین مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام کی جانب سے حکومتی تحریری بیان کے اعلان کے بعد شرکاء کو یہ یقین دہانی کرواتے رہے کہ مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں وہ دوبارہ میدان میں اتر سکتے ہیں۔ ان کے بقول احتجاج ختم نہیں بلکہ معطل ہوا ہے۔ تاہم وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے جاری بیان میں راؤ انوار کی گرفتاری جلد از جلد کرنے کی یقین دہانی تو کروائی ہے لیکن اس میں کسی وقت یا مدت کا تعین نہیں کیا ہے۔
وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر امیر مقام کے دستخط سے جاری بیان میں باردوی سرنگیں صاف کرنے کی بھی بات کی گئی ہے لیکن اس میں لاپتہ افراد کا ذکر کہیں نہیں۔ حالانکہ احتجاج کرنے والوں کا تیسرا بڑا مطالبہ تمام لاپتہ افراد کی جلد بازیابی اور ان پر کسی الزام کی صورت میں عدالت میں پیش کرنے کا تھا۔خود مظاہرین کے رہنما منظور پشتین دھرنے میں اعلان کرچکے ہیں کہ احتجاج کے آغاز سے ان کی اطلاعات کے مطابق تقریبا ستر لاپتہ افراد واپس اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ مظاہرین کے تقریبا پچھتر فیصد مطالبات کا تعلق فوج سے ہے لیکن جمہوریت پسندوں کو اچھا لگا کہ سیاستدانوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے خود ہی حل کر لیا اور فیض آباد دھرنے کا پارٹ ٹو ہونے سے اس احتجاج کو بچا لیا۔اس احتجاج کی روح قبائلی نوجوان یقینا اتنی بڑی کامیاب مہم پر خوش اور مطمئین ہیں۔ ان کی نظریں اب اس تحریک کو ایک مستقل شکل اور ملک گیر وسعت دینے پر ہیں۔ احتجاجی مہم کے دوران موجود نوجوانوں میں تحریک کی رکن سازی کا عمل بھی فارمز کی تقسیم سے آگے بڑھایا گیا ہے جبکہ تحریک کا نام بھی محسود تحفظ موومنٹ کی بجائے پختون تحفظ موومنٹ قرار پایا ہے۔ امان اللہ وزیر، نائب صدر پشتون سٹوڈنٹ سوسائٹی، پشاور یونیورسٹی، نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اس کی وجہ ملک بھر سے پختون طلبہ تنظیموں کا دباؤ تھا جن کا اصرار تھا کہ تحریک جن مسائل کو اٹھا رہی ہے وہ محض ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں۔پوچھا کہ اس تحریک کی غالباً زیادہ توجہ تو قبائلی علاقوں پر ہی ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ یقینا کیونکہ قبائل کو تو دیگر شہریوں کے مقابلے میں کوئی حق حاصل نہیں۔ فاٹا کے لوگوں کو ریاست سے انسان ہی تصور نہیں کیا ہے لہٰذا سب سے بڑا مسئلہ بھی انہیں کے لیے ہے۔وہ موجودہ تحریک کی کامیابی سے اس لیے خوش ہیں کہ جو باتیں ہم خوف کی وجہ سے نہیں کہہ سکتے تھے وہ انھوں نے اب کہہ دی ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کون ہمیں مروا رہے ہیں، کون ہماری پسماندگی کی وجہ ہیں۔ لیکن جب نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی اور اپنے حقوق کے بارے میں انہیں آگہی ملی ہے تو اب ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ان حقوق کے حصول کے لیے ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں۔پختون تحفظ کی تحریک اب ایک باضابطہ شکل اختیار کرچکی ہے۔ منظور پشتین کی سربراہی میں اب یہ ہر ضلع اور ایجنسی میں تنظیم سازی کا ارادہ رکھتی ہے اور مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ شمالی وزیرستان کے میرعلی علاقے سے تعلق رکھنے والے کاشف رحیم پشاور میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ بھی احتجاج میں شریک رہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس احتجاج نے انہیں بتا دیا کہ باہمی اتفاق میں بہت فائدہ ہے۔ اب سب جاگ گئے ہیں۔ ہمارے علاقے میں تو میڈیا نہیں تھا۔ گاؤں میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اب پڑھنے کے لیے باہر آئے ہیں تو سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر بھی ہوگئے ہیں۔قبائلی علاقوں میں سوشل میڈیا کی بدولت، اگرچہ انٹرنٹ کی سہولت قبائلی علاقوں میں اب بھی کوئی زیادہ عام نہیں، اب شاید مزید ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اب ظلم کرنے والوں کو بھی سوچنا پڑے گا۔
intelligent086 (02-13-2018),Ubaid (02-13-2018)
عمدہ اور خوب صورت شیئرنگ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Ab jag uthai hai deewanai, Dunya ko jaga kar dum lai gai
Ezzat sai jiye to jee lai gai, Ya jaam-e-shahadat pee lai gai
smartguycool (02-13-2018)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks