SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: کیرانچی کا جوغرافیہ

    1. #1
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      smartguycool's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Posts
      616
      Threads
      448
      Thanks
      102
      Thanked 493 Times in 328 Posts
      Mentioned
      127 Post(s)
      Tagged
      61 Thread(s)
      Rep Power
      7

      کیرانچی کا جوغرافیہ

      کیرانچی کا جوغرافیہ


      کراچی مِنی پاکستان ہے، رنگ، نسل، بود و باش اور زبان و بیان میں وطنِ عزیز کا مکمل پَرتوِ حیات ہے، لہور اگر شہرِ زندہ دلان ہے تو کراچی ما و شما کی خندہ پیشانی ہے، جہلم گر بازوئے شمشیر زن ہے تو کراچی اس وطن کا کماوُ پوت ہے، سیالکوٹ شہرِ استقلال ہے تو کراچی عزمِ نَو ہے، لائیلپور مانچسٹر ہے تو کراچی ایک سورما سوداگر ہے، ملتان اگر شہرِ اولیاء ہے تو یہاں میٹھے پانیوں کے چشمے بہانے والے تبع تابعینؓ محوِ استراحت ہیں۔
      پھر بھی کراچی والوں کے شب و روز کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ دن میں بُنے ہوئے خواب رات کو پریشان رکھتے ہیں اور رات میں آنے والے خواب دن میں تنگ کرتے ہیں۔
      خواب میں جس سے پریشان تھے ہم
      آنکھ کھولی تو وہی نقشہ سامنے ہے
      حکومت کفر کی ہو یا ظلم کی، عدل کی ہو یا انصاف کی، چلے یا نہ چلے، مگر کراچی فیکٹر انچارجوں کے بغیر بالکل نہیں چل سکتا، کراچی پر اثرانداز ہونے والے بہت سے فیکٹر ہیں اور ہر فیکٹر کا ایک علیحدہ انچارج ہے، کبھی ایک فیکٹر اسپر حاوی ہوتا ہے، کبھی دوسرا تو کبھی تیسرا، قانون اور سیاست کی کشمکش اس شہر پہ ایسے سوار رہتی ہے کہ یہ گھٹنا کھولیں تو آئے لاج اور وہ گھٹنا کھولیں تو بھی لاج ہی آئے۔
      ان دونوں گھٹنوں کے بیچ ہزاروں زخم سہنے والے اس شہر کے عزم و استقلال کو زندہ دلان جیسا کوئی نام دینا چاہئے، مگر حال مست و چال مست مہربانوں کی بدولت اپنی تمامتر خوبیوں کے باوجود فی الوقت یہ شہر ناپُرساں ہی کہلا رہا ہے، حالانکہ جس قدر یہ شہر جاگتا ہے اتنا کوئی دوسرا نہیں جاگتا، جتنا یہ سوچتا ہے اتنا کوئی سوچتا بھی نہیں، جس قدر یہ کماتا اور کھلاتا ہے اتنا کسی کو اور کوئی نہیں پالتا پھر بھی کراچی کا درد اور اس کا جوغرافیہ سونے کے حروف سے بھی لکھ دیں تو سرخ فیتے کے نیچے ہی رہتا ہے۔
      نے دے اضطرار نے دے ہم کو
      دیون ہو، تو کچھ اضحاک دے ہم کو
      سمے کے ایسے سرد مہر بندھن پہ شکوے کی پٹاری کھولنے کی بجائے ساغر جیسے رندوں کی طرح ایک نعرۂ مستانہ لگا کے اس نظامِ مصلحت کوش پہ جتنا ہو سکے ہنس لیں، چلیں ساغر کی طرح گلی کی نکڑ پر پڑی اینٹ پہ بیٹھ کے چند بے لاگ قہقہے لگا لیتے ہیں کہ ایسے وقت میں اک صورِ اضحاک ہی پھونکا جا سکتا ہے سو وہی مقصودِ تمنا ہے، ساغر کے اس تحریف شدہ شعر کیساتھ سنجیدہ گفتگو اب تمام شد۔
      جس دور میں بھی لٹ جائے کراچی کا عارض
      ہر اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
      کیرانچی کا جوغرافیہ جاننے سے زیادہ محسوس کرنیوالی چیج ہے، یہ ارباب اختیار کی لذت گاہوں اور محورِ عنایات سے بہت دور ایک گنجان آباد قسم کا بین الاقوامی گاؤں ہے جس کا رقبہ کل ملکی غربت سے کئی گناہ وسیع اور بے بضاعتوں، تہی دست و تہی دامنوں کو پناہ دینے میں فزوں تر ہے اسی لئے یہ ہر کس و ناکس کو پالنے میں ماں جیسا درجہ، درد، جذبہ اور وسعت قلبی رکھتا ہے مگر اس کا اپنا شناور کوئی نہیں۔
      کراچی کا جغرافیہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں پہ یہ ختم ہونا چاہئیے مگر عوام الناس کو ہرگز قبول نہیں کہ آغوشِ مادر جیسے اس سائبان کا رقبہ کہیں پہ ختم ہو اسلئے یہ تین اطراف سے شروع ہی رہتا ہے، عوام کو کراچی سے ایسا گراں قدر عشق ہے کہ خدانخواستہ جہاں کہیں پہ ختم ہونے لگے وہیں سے دوبارہ اسے شروع کرا لیتے ہیں، یہ خاصیت پھیلاؤ کسی اور شہر بلکہ درجہ حرارت سے پھیلنے والی گیسوں میں بھی کم ہی پائی جاتی ہے، سائینسدان کہتے ہیں یہ کائنات ہر لمحہ پھیل رہی ہے، ہو سکتا ہے انہوں نے کراچی کو بے حساب پھیلتا ہوا دیکھ لیا ہو۔
      کراچی کی سب سے بڑی پہچان اس کی نئی آبادیاں ہیں، یہ اتنی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں کہ ان کے نام رکھنے کیلئے کم پڑ جاتے ہیں لہذا جس جگہ جو چیز غالب اکثریت میں نظر آئے وہی اس علاقے کا نام تجویز کر دیا جاتا ہے یعنی بہار کالونی، مچھر کالونی، گیدڑ کالونی، بھینس کالونی اور کنواری کالونی وغیرہ وغیرہ حالانکہ پہلا مکان بننے کے بعد اسے کنواری کہنا کافی عجیب سا لگتا ہے لیکن کراچی میں کسی بات پر بھی اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے اس میں کچھ عجب نہیں، یہاں نااتفاقی کا اصول بھی یہی ہے۔
      کیرانچی کا موسم ٹھنڈا ہے پھر بھی کوئی نہ کوئی علاقہ گرم ہو جاتا ہے، ایمان کی تازگی کیلئے ایک آدھ حصہ ویسے بھی گرم رکھنا پڑتا ہے، پہلے یہ رتبہ لالو کھیت کو حاصل تھا آجکل یہ منصب لیاری شریف کے پاس ہے۔
      کراچی کو رنگوں اور رنگی ہوئی چیزوں سے بہت پیار ہے اسلئے یہاں ہر چوک کو چورنگی کہتے ہیں، ان چورنگیوں کی بھیڑبھاڑ میں بھول چُوک سے ایک چوک بھی پیدا ہو گیا ہے جسے پرفیوم چوک کہتے ہیں، بلاشبہ یہ دنیا کا پہلا خوشبودار چوک اور سب کی پسندیدہ جگہ ہے، یہاں پہنچ کے آپ ناک پر سے رومال ہٹا سکتے ہیں اور کھل کے سانس بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ بھولنے والی بات نہیں کہ اکثر وارداتوں میں یہی چوک ملوث ہوتا ہے اسلئے یہاں سے جلدی جلدی گزرنا پڑتا ہے۔
      دوسری مشہور چُوک یا چَوک ناگن چورنگی ہے لیکن ناگن دیکھنے کیلئے وہاں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ طبیعت عاشق مزاج اور شاعرانہ ہو تو ہر جگہ ایسی ناگنیں مل جاتیں ہیں جن کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا، صرف اپنا کریڈٹ کارڈ واپس مانگتا ہے، متحیر کے اپنے دو کارڈ اسی تحیر میں کہیں گم ہیں۔
      ملک خداداد و زیرِ انتظامِ ضدِ اجداد کہیں بھی ایک اور کراچی آباد کرنا ہو تو بہت آسان سا کام ہے، نہ کوئی پلاننگ چاہئے نہ کوئی انفراسٹرکچر درکار ہے، بس ایک لاکھ گاؤں کسی کھلی جگہ پر منتقل کر دیں، پھر کئی سال تک اس ذخیرے کو کوئی بھی نظرِ رحمت سے نہ دیکھے تو بیس سال بعد نیا کراچی تیار ہو جائے گا مگر چونکہ یہ سمندر کے بغیر ہوگا لہذا اسے سلیمانی کراچی یا ڈائیٹ کراچی کہنا ہی مناسب ہوگا اسلئے کہ اصلی جیسا مزا، تکلیف، درد یا ریوینیو اس میں بہرحال پیدا نہیں ہو سکتا خواہ کتنی ہی دھوپ کیوں نہ لگوا لی جائے یا کتنا ہی پان کیوں نہ پھیلا دیا جائے۔
      کراچی کی ہر آبادی اسے بسانے والوں کے ذوقِ آرٹ کی بہترین نمائندہ تصویر ہے، ایبسٹرکٹ آرٹ کا جو بہترین نمونہ کراچی کی ساخت میں پیش کیا گیا ہے، یہ ٹاؤن پلانرز کی گہری نیند اور شہریوں کی اسی قدر بیداری کا عکاس ہے، اس پر گارنشنگ کیلئے تجاوزات کی گلکاری بھی نہایت مہارت کیساتھ کی گئی ہے اور اس تصویر میں حقیقی رنگ بھرنے کیلئے جا بجا گہرا سیاہی و عنابی مائل پانی بھی مستقل بنیادوں پر چھوڑا گیا ہے، ان تمام نقش و نگار کی حفاظت کا ذمہ کچھ ٹاؤن کمیٹیوں نے لے رکھا ہے۔
      علاوہ ازیں کراچی ایک ملٹی اسٹوری شہر بھی ہے، جتنا یہ اطراف میں پھیلتا ہے، ہمہ وقت اتنا ہی اوپر بھی جاتا ہے بلکہ اتنی ہی گہری زیرِ زمین دنیا بھی رکھتا ہے یعنی کراچی کا رقبہ فاتح شش جہات ہے، جیسے جیسے یہ ترقی کرتا اوپر جاتا ہے ویسے ویسے لوگوں کے سماجی درجات بھی بلند ہوتے جاتے ہیں البتہ بے احتیاطی سے گھومنے پھرنے والے اتنا نیچے چلے جاتے ہیں کہ پھر ان کیلئے بلندیٔ درجات کی ہی دعا مانگ سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔
      الغرض دنیا ایک گلوبل ولیج ہے جس کے اندر کراچی ایک بہت بڑا برِاعظم ہے جو بحرالکاہل قسم کے شہری اداروں کے اردگرد متمکن ہے، جس کے اندر عوام الناس نے اپنی مدد آپ کے تحت کم و بیش ایک لاکھ گاؤں بحسنِ خوبی ٹھونس رکھے ہیں اور خود اسی زنجبیل کی پہنائیوں میں جیسے تیسے بن پڑے آباد ہیں۔
      کراچی ادیبوں کا شہر ہے، اس میں نامور سے زیادہ گمنام ادیب پائے جاتے ہیں، جسے یقین نہ آئے وہ شہر کی دیواریں دیکھ کے یقین کر سکتا ہے، کراچی پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اس سے زیادہ لکھنے کی گنجائش موجود ہے مگر دیواروں پر اب اتنی جگہ باقی نہیں رہی۔
      فروغ ادب کیلئے کراچی میں ایک آرٹس کونسل بھی ہے جسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کیلئے سائنٹیفک بنیادوں پر چلایا جاتا ہے اسلئے آرٹس والوں کی سمجھ میں اس کی سائنس نہیں آتی اور سائینس والوں کے پلے اس کی آرٹس نہیں پڑتی، ادب کے طالبعلوں کیلئے اس کی ممبرشپ فیس گھیراؤ جلاؤ کے مقدمے میں وکیل کو دی جانے والی فیس کے ہم پلہ رکھی جاتی ہے اسلئے عوام اس میں آتے جاتے نہیں ورنہ انہیں پتا ہوتا کہ وہاں کون کون آتا جاتا ہے اور انہیں کچھ آتا جاتا بھی ہے، لے دے کے جو اسے چَلا رہے ہیں بس وہی اسے چِلا رہے ہیں۔
      کراچی میں ٹیرانسپورٹ کا بھی ایک وسیع ترین نیٹ ورک قائم ہے جو برسوں کی ان تھک محنت سے الجھایا گیا ہے، کچھ سمجھ نہیں آتی کونسی بس کس جگہ جاتی ہے، یہاں بس کے آگے اس کی منزل واضع الفاظ میں لکھنے کی بجائے صرف رُوٹ نمبر لکھ دیا جاتا ہے تاکہ جسے پتا ہے وہ بس پر سوار ہو جائے اور جسے نہیں پتا وہ جا کر پہلے تعلیم حاصل کرے، یہ محکمۂ تعلیم کی طرف سے شرحِ خواندگی بڑھانے کیلئے ایک خصوصی شرط ہے جو محکمہ ٹیرانسپورٹ پر لگائی گئی ہے، تعلیم بزریعہ ٹریفک، یہ مہم آپ کو کسی اور شہر میں کبھی نہیں ملے گی لہذا پڑھے لکھے لوگ اپنی مطلوبہ بس میں بزور قوت سوار ہو جاتے ہیں اور مریض وغیرہ اگلی کسی خالی بس کا انتظار کرتے ہیں جو قرعہ اندازی یا دعا کے ذریعے ہی آتی ہے، ویسے نہیں۔
      اگر آپ کو منزلِ مقصود پر لازمی پہنچنا ہے تو کسی بھی بس پر سوار ہو جائیں اور اگر اپنی ہی منزل پر پہنچنا مقصود ہو تو پھر اسی بس پر سوار ہوں جو اس طرف جاتی ہو جس طرف آپ کی منزل ہے، عدم واقفیت کی صورت میں اسٹاپ پر کھڑے لوگوں سے ماہرانہ رائے بھی لی جا سکتی ہے، اگر مسئول علیہ کا دہن فراغت کا آئینہ دار ہوا تو واضح راہنمائی مل جائے گی، ورنہ اشاروں کی زبان سمجھنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہوگی، آپ کسی غلط منزل کی طرف روانہ ہو جائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اتنی سی بات کیلئے پان ضائع کرنا جہاں کور ذوقی کا مظہر ہے وہاں یہ لٹریسی ریٹ بڑھانے میں بھی ممد و معاون ہے، یہ امر بھی محکمہ تعلیم کی طرف سے شرح خواندگی بڑھانے کا ایک منفرد شاخسانہ سمجھ لیجئے۔
      پتا بتانے کے معاملے میں کراچی اتنا یوزر فرینڈلی ہے کہ آپ اس کے کسی علاقے سے واقف نہ بھی ہوں تو بھی پتا پوچھنے والے کو باآسانی گائیڈ کر سکتے ہیں اس کیلئے آپ کو صرف تین جادوئی الفاظ یاد کرنے ہوں گے، وہ برابر میں، وہ آگے، وہ سامنے، ساتھ ہی اس طرف اشارہ بھی کرنا ہوگا جس طرف کی آپ صلاح دے رہے ہوں تاکہ مدعی گمراہ نہ ہو جائے البتہ یہ الفاظ بمعہ اشارہ ادا کرنے سے پہلے یقین کر لینا چاہئے کہ اس طرف کوئی دیوار وغیرہ نہ ہو، پتا پوچھنے والا انہی تین جادوئی الفاظ کی بدولت ٹھوکریں ٹھاکریں کھاتا بلآخر اپنی منزل تک پہنچ جائے گا، میں نے جس کسی سے کبھی رستہ پوچھا اسی اصول سے سمجھا اور سمجھایا بھی ہمیشہ اسی طرح سے ہے، الحمدللہ آج تک کبھی کسی نے واپس ہو کے کسی کو گلہ شکوہ نہیں کیا، جو بھی کسی نے کہا بس غائبانہ ہی کہا ہوگا۔
      کراچی کی ٹیرانسپورٹ اتھارٹی اور سڑکیں بڑی حد تک بس خور ثابت ہوئی ہیں، اورینج اور گرین لائن بسیں آجکل انہی اسڑاک پر اپنی قسمت آزما رہی ہے جن کے اوپر کے۔ٹی۔سی سے لیکر سی۔این۔جی بسوں کے کئی بیڑے یہاں ڈوب چُکے ہیں، اورنج اور گرین بس بھی کب تک اپنی خیر منائے گی۔
      کراچی میں انتظامات کی نگرانی کیلئے ایک میئر اور باقی ہر طرف ائیر ہوتی ہے، جہاں ہوا نہ ہو وہاں بھی سب کچھ ہوا ہی میں ہوتا ہے، یہاں کچھ اور ملے نہ ملے ہر طرف کھلی ہوا ضرور ملے گی جو پانی کی دیوی کی طرف سے چلائی جاتی ہے، پانی کی دیوی بھی سرکاری اداروں کی طرح آدم زاد سے بیزاری و لگاوٹ کے ملے جُلے احساس کی بنیاد پر شہر سے دور سمندر پہ اپنا تخت بچھا کے براجمان رہتی ہے، بیزاری و لگاوٹ کا ملا جلا احساس اپنے اندر وہی معنی رکھتا ہے جو یہاں سے ریوینیو پکڑنے اور پھر یہاں پر دھیلے کا بھی کوئی کام نہ کرنے والوں کو بین بین مقدار میں لاحق ہوتا ہے، البتہ سرکاری حکام اور دیوی میں اتنا فرق ضرور ہے کہ وہ کراچی کی طرف ہوا ہی سہی کچھ نہ کچھ بھیجتی تو ہے، بہرحال حتمی طور پہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہوا رسانی کیلئے دیوی پنکھا جھلتی ہے یا ایسے ہوا دیتی ہے جیسے سیاسی بزرگانِ ملت مسائلِ عامہ کو ہوا دیتے ہیں۔
      ترے لب اوپر چَھپ سُوں ہَلتا ہے ہر مکڑا
      کہ جِیوں مچھلی آ آ کے ٹُھنگتی ہے چارا
      چن ماہی کی یاد بھولنے والی چیج نہیں ہوتی، اسلئے ماہی کی یاد تازہ رکھنے کے واسطے کراچی کی ہواؤں میں عطرالحوت نامی خوشبو المعروف یاد ماہی بالخصوص ملائی جاتی ہے، اس کارِ منصبی کیلئے شہر کے تین اطراف میں سمندر نامی ذخیرہ ہائے آبِ تُرش رکھا گیا ہے، جس کا کام صرف خام مال مہیا کرنا ہے، باقی کی خدمات مقامی فشریز یعنی ماہی گاہیں بلا معاوضہ انجام دیتی ہیں۔
      دیوی کی پرخلوص کوشش کے بعد کراچی کو ایک پُر فضا مقام بنانے کیلئے یہ ماہی گاہیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان کی کوشش کے باوجود جہاں تک یادِ ماہی یعنی عطرالحوت نہ پہنچ سکے وہاں سے ان کے چھکڑے ایکبار گزر کے یہ باور کرا جاتے ہیں کہ انسانی دماغ میں اندازاً کل کتنے طبقات ہیں جو ہنوز روشن نہ تھے یا عطرالحوت سے روشن کئے جا سکتے ہیں۔
      شام کے بعد کھارادر، مائی کلاچی، چندریگر اور کورنگی روڈ پر بس یا کار پر سفر کرتے ہوئے اچانک جب کوئی پاس والے مسافر کو سوالیہ نظروں سے پوچھے کہ یہ بو تمہاری باطنی ملکیت تھی جو اب آزاد فضاؤں میں رچ بس رہی ہے تو سمجھ لیجئے کہ مسئول بیچارے کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ عطرالحوت ہے جو کسی ماہی گاہ کے چھکڑے سے لپٹوں کی صورت میں شہرِ خویش کے ذی نفسوں کیلئے بغرض فیض رسانی ان مشہور شاہراہوں پر ہر شام کے بعد نصف الیل تک بِلا اُجرت و کراہت لہرایا جاتا ہے، بلا اُجرت اس لئے کہ اس چیج کی اُجرت دینے کو کوئی تیار نہیں اور بِلاکراہت اس لئے کہ کراہت ساری سونگھنے والے کی اپنی ذمہ داری یا صوابدید پر چھوڑ دی جاتی ہے۔
      شہر کے پُرفضا مقامات میں گوٹھ ابراہیم حیدری کا مقام سب سے نمایاں ہے، اس فضا کا صحیح ادراک یا آگہی کا عذاب صرف کورنگی کریک والوں کو پتا ہے، یہاں کی فضا ہمیشہ ماہی کی یاد سے مخمور رہتی ہے، خاص طور پہ شہر میں صبح کے وقت فشریز کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کو عطرالحوت اور حیدری گوٹھ کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کو محتاط ادبی زبان میں نسیمِ حیدری کہا جاتا ہے، بادِ نسیم یہاں بعدِ نسیم یا مابعد ازمنۂ قدیم کا درجہ رکھتی ہے، یہ صرف ان دنوں میں آتی ہے جب ماہی گاہوں میں یومِ رخصت ہو اور ایسا کوئی دن سو سال بعد پورن ماشی کی کسی رات کو ہی آتا ہوگاشائداور چپ چاپ اپنی لطافتِ حسنہ محسوس کرائے بغیر ہی گزر جاتا ہوگا مکرر شائد جیسے پانچ سالہ جمہوری دورِ حکومت بِنا نظر آئے یا بِنا محسوس ہوئے گزر جاتا ہے۔
      شہر کی نمایاں نشانیوں میں کئی عمارتیں اور ایک امارت قابل ذکر ہیں، عمارات میں کئی پلازے شامل ہیں جبکہ امارت میں ایک ناظم اعلیٰ کا عہدہ شامل ہے، عمارتوں کا شمار شہر کی چیدہ چیدہ نشانیوں میں ہوتا ہے جبکہ امارت کا شمار شہر کی پیچیدہ نشانیوں میں ہوتا ہے، یہاں عمارتوں اور امارتوں دونوں پر سیکیوریٹی کا معقول انتظام رکھا جاتا ہے تاکہ ہوا کے تیز دباؤ سے کوئی موج میں نہ آجائے، ان کے جھکنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسلئے ان کے اوپر نظر رکھنا بہرحال ضروری ہو جاتا ہے۔
      یہاں کے لوگ شہری خدمات و سہولیات کی انجام دہی کیلئے بھاری اکثریت سے ایک میئر یا ناظم اعلیٰ منتخب کرتے ہیں، پھر اسے شہریوں کے وسیع تر مفاد میں جیل بھیج دیا جاتا ہے تاکہ چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی بجائے وہ ایک دن بڑا لیڈر بن کے باہر نکلے، خدا کا شکر ہے کہ اس بیچارے کو ہنوط کرنے کا رواج ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔
      ناظم اعلیٰ منتخب ہونے کے کچھ دن بعد ہی شہریوں کو پتا چلتا ہے کہ ان کا انتخاب اب کوئی کام کرے گا یا جیل جائے گا، اس کا فارمولا نہایت سیدھا سا ہے، اگر تو شہریوں کی قسمت خراب ہو تو ناظم جیل جائے گا اور اگر ناظم کی اپنی قسمت خراب ہے تو اسے دن رات کام کرنا پڑے گا، شہری بھی بہت سیانے ہو گئے ہیں، اب وہ کام کیلئے ووٹ نہیں دیتے بلکہ اس بندے کو ووٹ دیتے ہیں جس کے ذریعے سے اپنی یا اس بندے کی قسمت کا حال معلوم کرنا ہو، پامسٹری کی دنیا میں قسمت چیک کرنے کا یہ سب سے انوکھا طریقہ ہے جو صرف کراچی میں دستیاب ہے۔
      کراچی کے ناظم کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کی قابلِ دست انداز متوقع نمایاں غلطیوں میں دن رات اس شہر کے کام سنوارنا، ویسٹ مینجمنٹ، کھڈے پُر کرنا، اسٹریٹ لائیٹس، سیوریج، واٹر سپلائیز، شاہرات و اسڑاک درست کرانا اور ٹریفک کی بلا تعطل روانی برقرار رکھنے کیلئے رضاکار فورس وغیرہ متعین کرنا جیسی ناشائستہ حرکات شامل ہیں، جن پر بہت سا قومی سرمایہ بلاوجہ شہریوں کی ان چھوٹی چھوٹی عیاشیوں کی نذر ہو جانے کا خدشہ صوبائی خزانے کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے، لہذا ان حرکات کو سکنات کرنے کیلئے ناظم جیسی خطرناک امارات کو اندرونِ حوالات کرنا پڑتا ہے۔
      شہر میں بہت سے دیگر محکمے بھی قائم ہیں جن کا بنیادی مقصد کچھ عوام کو سرکاری طور پر روزگار فراہم کرنا ہوتا ہے، لہذا جب اس کچھ عوام کو روزگار مل جائے تو ان کے ذمے صرف عزت کیساتھ اپنی گزر بسر کرنا ہوتا ہے، اسلئے انہیں کوئی دوسرا کام نہیں سونپا جاتا، جب کوئی سائل ان محکموں سے اپنا کوئی مسئلہ حل کرانا چاہے تو اس کیلئے شہری کو ان کے ہاتھ پاؤں ہلانے کا جائز معاوضہ اپنی گِرہ سے موقع پر نقد ادا کرنا پڑتا ہے۔
      ایک محکمہ صفائی کا توازن درست کرنے پر بھی مامور ہے جس نے سوک سینس اجاگر کرنے کیلئے جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنوا رکھی ہیں لیکن یہ چونکہ کوڑا پھینکنے کے حقیقی مقام سے سوا دو فٹ پرے بنائی گئی ہیں اسلئے کوڑا ان کنڈیوں میں گرنے کی بجائے دوفٹ ادھر ہی رہ جاتا ہے، کوئی شہر اس نظام کو کاپی کرنا چاہے تو ایک مطالعاتی دورہ کرسکتا ہے تاکہ انہیں سمجھ آسکے کہ تعمیرات سوادوفٹ کس طرف رکھ کے کرنی ہوں گی کہ کچرا ان کنڈیوں کے اندر جا سکے، ان کنڈیوں سے اٹھنے والے عود الکچر اور عطرالحوت کی باہم آمیزش سے جو فضائی مرکبات ترتیب پاتے ہیں ان کا توازن راست کرنے کیلئے یہاں مزید پرفیوم چونکس بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے مگر اس کیلئے پہلے کوئی محکمہ بنانا پڑے گا۔
      سیر وتفریح کیلئے تاحد نگاہ کچھ دیکھنا ہو تو لوگ سمندر دیکھ لیتے ہیں، دور کی نظر کمزور ہو تو اریب قریب چلتی پھرتی مستقبل کی والداؤں کو دیکھ لیتے ہیں، اس سے نظریہ اور نظر دونوں ہی مطمئن رہتے ہیں، اسی مقصد کیلئے کسی باغ یا پارک میں بھی جایا جاسکتا ہے۔
      شہر کے نمایاں باغوں میں باغ ابن قاسم نوجوانوں میں بہت مقبول ہے، نوجوان اس پُرفضا باغ میں ان بچیوں کے وہ تاریخی خطوط وصول کرنے جاتے ہیں جو اپنے اپنے مجوزہ نجات دہندگان کو وہ اپنے گھر سے رہائی پانے کی درخواست کے طور پہ بنفس نفیس خود پہنچانے آتی ہیں، لیکن بوقت ملاقات بتقاضائے باہمی طلاطم ہائے جذبات اکثر و بیشتر معاملات سرعام اشیائے حِسی کے نقد تبادلے میں بھی ڈھل جاتے ہیں، ویسے بھی سچی بات ہے کہ کاغذ پر لکھے ہوئے بوس و کنار کا وہ حقیقی لطف کبھی نہیں آتا جو اس فعلِ حسنہ میں کارآمد اشیائے حِسی کے باہم تبادلے میں آتا ہے، باغ ابن قاسم کی تاریخ کا یہ رومانچک باب آیا خان نامی تاریخدان نے اپنے شوز میں بیان کر رکھا ہے۔
      کراچی میں ایسے دل والے اور دل والیاں بھی ایک سے بڑھ کے ایک ہیں جو آپس میں ملنا تو چاہتے ہیں لیکن گلے ملنا ابھی نہیں چاہتے، ایسے عشق کو سلیمانی عشق کہتے ہیں، سلیمانی عاشق یا اپرنٹس عاشقین باغ قاسم کے ادراخت کی اوٹ میں بیٹھنے کی بجائے قریبی جھولوں کے ارد گرد ملتے ہیں جو باغ کے اگلی طرف وافر تعداد میں لگائے گئے ہیں، صراط عشق کے ایسے کئی لاروے اور پیوپے سلیمانی عشق کی وارداتیں الہ دین پارک میں بھی کرتے ہیں اور بانہوں کی بجائے آہنی جھولے جھول کے واپس آجاتے ہیں، کچھ وہاں کے گول گپے بھی شوق سے کھاتے ہیں تاکہ اسی بہانے ایکدوسرے کو سکون سے دیکھ سکیں، خاص طور پہ منہ کھولتے اور ہونٹ سکیڑتے ہوئے اپنی اپنی یاداشتوں میں سمو سکیں۔
      الغرض کراچی میں انسان تو ایک طرف بعض مادی اشیاء کو بھی پوری رواداری کیساتھ سکون کا سانس لینے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اس کی خوبصورت مثال ہر فلائی اوور پر آڑے رخ بنی وہ خفیف سی نالیاں ہیں جن کے اوپر سے گزرتے وقت ہر گاڑی میں سے ڈب ڈب گھب گھب کی خوبصورت سی آواز کئی بار آتی ہے، یہ وہ نالیاں ہیں جہاں سے یہ پُل آزادانہ سانس لیتے ہیں اور اس طرح سے اس دنیائے فانی کیساتھ اپنی حیاتِ لاینحل کا رشتہ برسوں سے قائم رکھے ہوئے ہیں۔
      کراچی کی ڈشوں میں زیادہ مشہور پان ہے، اس کے علاوہ یہاں دہاڑی اور نہاری بھی عام مل جاتی ہے، تفریح کے زرائع یہاں بہت کم ہیں اسلئے ہر بندہ اپنی تفریح منہ میں رکھ کے گھومتا ہے اور بعد از شغلِ کامل قریبی کونے کھانچے، سڑک یا سیڑھی پر پچکاری مار کے اپنے سنتشت ہو چُکنے کی رسید بھی چھوڑ جاتا ہے۔
      بیشتر شہروں میں دودھ سے ہر قابل ذکر چیز نکال کے باقی بچنے والے مائع کو لسی کا نام دے کے پی جاتے ہیں یا خشکی سے بچنے کیلئے اس محلول سے سر دھوتے ہیں جبکہ کیرانچی والے خوش ذوق ہونے کی بدولت پہلے دودھ کا دہی بناتے ہیں پھر اس میں مزید دودھ ڈال کے خوش ذائقہ لسی بناتے ہیں لیکن اس لسی سے آپ سر نہیں دھو سکتے، لسی سے سر دھونے کیلئے آپ کو واپس اپنے آبائی شہر ہی جانا پڑے گا البتہ یہاں لسی پینے جاتے ہوئے رستے میں جیب خالی کرنی پڑے تو پھر لسی سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
      یہاں آپ اڑے سے ابے تک کسی بھی لہجے میں بات کر سکتے ہیں، سامنے والا مائنڈ کر جائے تو لہجہ بدل لیجئے مگر شین قاف بہر طور درست رکھنا ہوگا، آپ کا قاف قواف کے اریب قریب نہ نکلا تو آپ کو خرخور یا لہوریا ہی سمجھا جائے گا جس کے ذمے دار آپ خود ہوں گے باقی شین کی اتنی ٹینسن ہم خود بھی نہیں لیتے۔
      کراچی کے لوگ بہت پُرخلوص ہوتے ہیں، بھیا کہہ کے بلانا ویسے بھی پیار محبت کی نشانی ہے، میل ملاقات سے بھی کبھی گریز پا نہیں ہوتے بلکہ آدھی رات کو بھی کسی سے ملنا ہو تو وہ باہر تھڑی پر ہی بیٹھا مل جاتا ہے لہذا یہاں دوستوں سے ملنے جلنے کیلئے ڈرائینگ و ڈائیننگ کی بجائے صرف بازو کھلے رکھنے پڑتے ہیں، کچھ لوگ زیادہ ہی ملنسار واقع ہوتے ہیں، یہ راہ چلتے ہؤوں کو گھیر کر ملتے ہیں، جو نہ ملنا چاہے اسے سامان دکھا کر مل لیتے ہیں اور ان کی قیمتی اشیاء و نقدی وغیرہ بطور یادگارِ ملاقات اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
      کراچی والے بہت پیار کرتے ہیں، سب کو اپنا گرویدہ بنا کے رکھتے ہیں، جو گرویدہ نہ ہونا چاہے انہیں مینیج کرنے کیلئے ہر کمیونٹی کا فیکٹر اور اس کا انچارج یہاں موجود ہوتا ہے، آگے اس کو مینیج کرنے کیلئے رینجرز بھی موجود ہوتی ہے، محبتوں کے یہ سلسلے ایک عرصے سے اسی طرح سے قائم تھے، اب پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ رینجرز صرف پانی کھولنے اور بند کرنے تک محدود ہو گئی ہے اور ہر کمیونٹی کا فیکٹر بھی اب اپنے کام سے کام رکھتا ہے، کچھ پاک سر زمین یاد کر کے بھی سنا رہے ہیں۔
      کراچی کے ہر گھر میں ایک ایسا فرد ضرور ہوتا ہے جس کی ڈیوٹی اپنے اہل خانہ کو آمدِ آب سے مطلع کرنا ہوتی ہے تاکہ ہر کوئی آکے پانی کی زیارت کر لے، اس موقع پر کوئی کلی کرنا چاہے یا سونگھنا چایے تو اس کام کی پوری آزادی دی جاتی ہے لیکن زیادہ فری ہونے کی کوشش میں پانی اسی بے نیازی سے واپس چلا جاتا ہے جس ادائے بے نیازی سے یہ وارد ہوتا ہے، دنیا میں پانی کی کئی اقسام ہیں جو کم و بیش ایچ۔ٹو۔او سے ہی مل کر بنتی ہیں لیکن کراچی میں آنے والا پانی کے۔ایم۔ایچ۔ٹو۔او یعنی کیڑے مکوڑے پلس ایچ ٹو او، اور بعض اوقات کے۔کے۔ایم۔ایچ۔ٹو۔او کی متناسب مقدار لئے ہوتا ہے، مؤخرالذکر فارمولے میں ایک اضافی کے فار کیچڑ ہے، پانی زیادہ کھاری ہو تو اسے آپ نائٹروجن کی مساوی آمیزش پر محمول کر سکتے ہیں۔
      کراچی میں جہاں جہاں پانی کا اختیار قانون نافذ کرنیوالے ادارے کے پاس ہے وہاں وہاں نہایت پابندیٔ وقت کیساتھ پانی نافذ کر دیا جاتا ہے تاکہ قانون کی پابندی کیلئے سب برانڈڈ پانی پی سکیں لیکن یہاں پانی کی ٹینکیاں عموماً غیر قانونی اشیاء چھپانے کے واسطے بنائی جاتی ہیں اسلئے ان میں پانی نہیں بھرا جاتا لہذا نافذ شدہ بیشتر پانی گلیوں میں آزادانہ و دلیرانہ انداز میں واٹر گشت کرتا ہی دکھائی دیتا ہے۔
      ابر مت گورِ غریباں پہ برس غافل آہ
      ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی
      پانی سے یاد آیا کہ ملک بھر میں جب بارشیں ہو رہی ہوں تو شاعر بیچارہ اہل کراچی کی خواہش کو اپنے الفاظ تو پہنا دیتا ہے لیکن حقیقت میں کراچی والوں کو بارش کا کوئی ذوقِ شاعرانہ لاحق نہیں ہوتا، ہاں البتہ صاف و شفاف پانی دیکھنے کی ایک دبی گھُٹی سی آرزو جی میں ضرور بسی رہتی ہے، ویسے بھی جب تک صاحبِ امارت کی ضمانت نہیں ہوتی یا امارت پر کوئی دوسرا فرد نہیں بیٹھتا تب تک کراچی والے بارش جیسی رومانٹک عیاشی افورڈ بھی نہیں کر سکتے۔
      علاوہ ازیں کراچی میں وہ سب کچھ ہے جو آپ کے آس پاس کہیں بھی واقع ہے، امراء، غرباء، مساکین، ارب پتی، کھرب پتی، بزنس ٹائیکونز، جہلاء، درویش، عالم، استاد، قابلیت، پروفیشنل ازم، تفریح، جرائم، قدیم طرز کا اندرونِ شہر، پوش ایریاز، شاپنگ اریناز، لائف سٹائل، برانڈز، ماڈلنگ، شوبز، گرین بیلٹس، پارکس، جوگنگ ٹریکس، خوانچہ فروش، دھابے، فائیواسٹارز، قدیم و جدید بستیاں، موٹو ریس، سی۔کروز، فوڈسٹریٹس، آرکیالوجی، مونیومینٹس، سمندر کنارے، جیمخانے، جمنیزیم، سوشل کلبز، باغات، زراعت، فارم ہاؤسز اور وہ سب کچھ جو کہیں بھی ہو سکتا ہے وہ سب کچھ یہاں پر بھی موجود ہے بلکہ طرز معاش، معیشت و معاشرت کے جدید انداز فکر اور بیشتر رجحانات یہیں سے ترتیب پاتے ہیں اور یہیں سے پھیلتے و سکڑتے ہیں۔
      شہر کراچی ایک مِنی پاکستان ہے، جیسے سب دریا یہاں آکے سمندر میں گرتے ہیں اسی طرح گلگت سے لیکر گوادر تک کا سارا کلچر یہاں آکے اس شہر کا ایک چہرہ بنتا ہے، یہ مہاجروں کا چہرہ ہے، وہ جو گجرات، کاٹھیاوار، دہلی، یو پی، سی پی، بنگال اور بہار سے آئے یا گلگت، چترال، سوات مردان، لہور، تربت، گوادر، سکھر یا نواب شاہ سے آئے ہوں، چند ماہی گیروں کی بستیاں چھوڑ کے باقی سب یہاں مہاجر ہیں خواہ دو نسلوں سے یہیں آباد ہوں، کوئی بھی مہاجر قابل نفرت نہیں، سب اپنے ہیں اور سب سچے اور کھرے پاکستانی ہیں۔
      جیسے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے اور پورے ملک پر برستا ہے ایسے ہی یہاں سے کھربوں روپے اوپر جاتا ہے اور اوپر کہیں جا کے سب بھاپ بن کے اڑ جاتا ہے، آپ چاہے پرکیپیٹا کا اصول سامنے رکھ لیں یا کلیکشن مارجن کو بنیاد بنا لیں ہر دو صورتوں میں سالانہ دوکھرب روپیہ کراچی پر لگانا اس کا حق بنتا ہے، یہاں جو کوئی مجرم ہے اسے بیشک لیجائیں مگر خدارا اس شہر کی امارت بمعہ ریوینیو میں اس کا حصہ بحال کر دیں تاکہ کراچی والے اس کا جغرافیہ مینٹین کر سکیں، یہ ہر قسم کے مہاجر کے دل کی آواز ہے، اسے دل کے کانوں سے ہی سننا چاہیئے۔
      تڑپا شب فراق سے تا صبحِ روز حشر
      اللہ رے اضطرار ترے بیقرار کا
      قصہ مختصر کیرانچی کا جوغرافیہ جس قدر وسیع ہے، اس کے مسائل بھی اسی قدر طولانی ہیں اور ان پائیدار مسائل کا کوئی بناسپتی یا خستہ سا حل بھی چونکہ ارباب اختیار کی شانِ بے نیازی کے خلاف ہے لہذا ان کا حل ہونا بھی چونکہ چنانچہ اگرچہ مگرچہ نگرچہ دیگرچہ وگرچہ اور حتیٰ کہ وغیرہم باہم ملا کے، بس نہیں ہے میؔر کچھ آساں ہونا یہاں۔
      یہ طویل نثرپارہ تقریباً تمام فیکٹر انچارجوں کیساتھ طویل مشاورت کے بعد لکھا گیا ہے لہذا یہاں مسائلِ کیرانچی کے اصلی و نقلی اسباب و علل اور ان کے نتائج آشکار کرنے کا بھنڈارا کھولنا ایسا ہی بیکار ہے جیسا مچھلی کو یہ بتانا کہ سمندر کیسا ہوتا ہے، یہ کھمبا نوچنے کی بجائے صرف اینجوائے کریں یا کیرانچی والوں کی طرح صبر کے جام لُنڈائیںچِیئررررز۔


      بشکریہ .. لالہ صحرائی






    2. The Following 2 Users Say Thank You to smartguycool For This Useful Post:

      intelligent086 (02-13-2018),Ubaid (02-12-2018)

    3. #2
      Moderator Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      Ubaid's Avatar
      Join Date
      Nov 2017
      Location
      Dubai U.A.E
      Posts
      1,250
      Threads
      192
      Thanks
      785
      Thanked 550 Times in 440 Posts
      Mentioned
      409 Post(s)
      Tagged
      67 Thread(s)
      Rep Power
      8

      Re: کیرانچی کا جوغرافیہ


      karachi k barai mai itnai achai aur khobsorat malomat jis nai ham ko herat mai dal diya hai.
      Karachi k barai mai mai nai bachpan sai suna tha k "karachi roshniyo ka shehr hai", Aur aj haqeqat sai ashna hoye k ye to esa roshniyo wala shehr hai jis mai roshni na darid.
      Keranchi ka joghrafiyah jo k hamarai shareef-u-nafs Siyasi shurafa k khas mehrubani sai apna misal ap ban giya hai.
      Ap nai ek chez miss kardi is joghrafiyai mai "Gujar Nala". Jo k boht hi tafri muqam hai, aur is nalai mai ek aur achi khobi k is mai mamta boht ziyada hai q jab bhi koyi bacha is k qareeb ata hai ye us ko apnai aghwash mai leta hai itna piyar karta hai k wo is dar-e-fani ko kher bad keh deta hai.

      Last edited by Ubaid; 02-12-2018 at 12:01 PM.

    4. The Following User Says Thank You to Ubaid For This Useful Post:

      intelligent086 (02-13-2018)

    5. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: کیرانچی کا جوغرافیہ

      عمدہ اور خوب صورت شیئرنگ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •