متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار واپس لینے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے بھی سبک دوش کرنے کا اعلان کر دیا۔
کنور نوید جمیل نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے کہا کہ فاروق ستار پر کئی الزامات ہیں اور ان کی غفلت کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پوری رابطہ کمیٹی نے مل کر فاروق ستار کو پارٹی رہنما بنایا تھا اور وہ 22 اگست سے پہلے بھی پارٹی کے رہنما تھے لیکن انھوں نے رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں لیے بغیر پارٹی آئین میں تبدیلی کی۔
فاروق ستار کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستارنے دھوکے سے پارٹی آئین تبدیل کرکے خود کو سربراہ بنایا اور اب فاروق ستار ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر نہیں رہے کیونکہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کےاعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے۔
ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر نے کہا کہ فاروق ستار اب ہماری پارٹی کے کارکن ہیں، عہدے آتے اور جاتے رہتے ہیں جس طرح میں اس وقت پارٹی کا ڈپٹی کنوینر بھی ہوں اور کارکن بھی ہوں اور اگر فاروق ستار اپنی اصلاح کرتے ہیں تو وہ دوبارہ کنوینر بن سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے صورت حال کی بہتری کے لیے کوشش کرتے رہے، ہماری کوشش تھی گھر کی بات گھر میں رہے۔
کنورنوید جمیل نے کہا کہ فاروق ستار پر بہت سارے الزامات ہیں، ان کی غفلت کی وجہ سے ایم کیو ایم کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ ہوئی، باربار توجہ دلانے کے باوجود فاروق ستار نے گوشوارے جمع نہیں کروائے۔
ایم کیوایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہم سب فاروق ستار سے محبت کرتے تھے اور کرتے ہیں، رابطہ کمیٹی کے اراکین پارٹی کا درد رکھنے والے لوگ ہیں لیکن ان کی تمام تر توجہ این جی او بنانے پر رہی ہے۔
فاروق ستار سے اختلافات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری ہراہم اجلاس میں فاروق ستارکےساتھ شامل ہوتےتھے، سینیٹ کے ٹکٹ سے متعلق رابطہ کمیٹی میں ووٹنگ ہوئی اور کامران ٹیسوری ووٹنگ کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کامران ٹیسوری پر تنقید ہوتی تو فاروق ستار برا مان جاتے تھے، انھوں نے دوست نوازی، پسند ناپسند پر فیصلے کیے۔
کنورنوید نے کہا کہ کامران ٹیسوری کی رابطہ کمیٹی میں شمولیت پرتمام اراکین نےاعتراض کیا تھا۔
ایم کیو ایم ٹیسوریوں سے بھری ہوتی، خالد مقبول
ڈپٹنی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بڑی مشکل سے کیا گیا ہے اور اگر اس وقت یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا تو پھر اگلے انتخابات کے بعد ایوان ٹیسوریوں سے بھرا ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ کل ہماری ملاقات فاروق ستار ہوئی اور تقسیم کو روکنے کے لیے ہم نے اپنی شرائط بھی واپس لیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ سینٹ ٹکٹ کی خاطر پارٹی تقسیم ہو اور تاریخ یہ رقم کرتی کی یہ پارٹی سینیٹ ٹکٹ پر تقسیم ہوئی لیکن آج تاریخ بتائے گی کہ ایسا نہیں ہوا۔
خالد مقبول صدیقی نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھیوں نے صاف کہا ہے کہ ہم 2018 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے، عامر خان نے کل ہی کنوینر نہ بننے کا اعلان کیا اور دیگر ساتھی بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
ایم کیوایم حقیقی ٹو کی بنیاد رکھ دی گئی، فاروق ستار
رابطہ کمیٹی کی جانب سے اعلان سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی صدارت میں پی آئی بی میں ہنگامی اجلاس ہوا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم حقیقی ٹو کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
سبکدوش کنوینر کا کہنا تھا کہ سازش بے نقاب ہوگئی ہے اور بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بالآخر میرے نادان ساتھیوں نے یہ اپنے فیصلے سے یہ ثابت کردیا کہ یہ کسی ایک فرد کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایم کیو ایم پر قبضے اور پارٹی کی سربراہی کا معاملہ تھا۔
فاروق ستار نے ازرا مذاق کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے کیوں نکالا کیونکہ آج صرف مجھے نہیں نکالا گیا بلکہ ایم کیو ایم کا ایک، ایک کارکن کو نکال دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج شہیدوں کے خون سے سودا کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے سربراہ مفاد پرست ٹولے، گروہوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا، کراچی کے قبضوں اور کراچی کو بیچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔
ردعمل میں انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنان، اسیروں اور گم شدہ کارکنوں اور میرے ساتھ برادران یوسف جیسا سلوک کیا ہے لیکن میں انھیں خبر دار کرتا ہوں کہ جب مکافات عمل ہوا تو جو برادران یوسف کے ساتھ ہوا تھا وہی انجام تمھارے ساتھ ہوگا۔
فاروق ستار نے کہا کہ تفصیلی کرارا جواب پی آئی بی میں کچھ دیر بعد دیا جائے گا جہاں کارکنان کی عدالت سجے گی اور کارکنان کی عدالت فیصلہ دےگی۔
قبل ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی) کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے لیے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کو اختیار دینے کا فیصلہ قبول کرلیا گیا تھا۔
صوبائی الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے آئین کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں بلکہ خالد مقبول صدیقی کے دستخط سے پارٹی ٹکٹ قابل قبول ہوگا۔
دوسری جانب صوبائی الیکشن کمشنر کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے اور الیکشن کمیشن کے افسران کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
اس موقع پر انھوں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری موجودگی میں ڈپٹی کنوینر اجلاس بھی نہیں بلا سکتے اور بحیثیت پارٹی کنوینر مجھے پارٹی ٹکٹ کا اختیار ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے اراکین کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے الگ الگ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا
اس کے ساتھ ساتھ اراکین رابطہ کمیٹی کی جانب سے ساتھ میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے دستور کا استعمال کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار خالد مقبول کو دے دیا ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے
تاہم گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران پہلے رابطہ کمیٹی کے رکن کنور نوید نے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا تھا
اس اعلان کے بعد سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے گزشتہ رات پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے جمع کرائے گئے 15 امیدواروں کے 17 فارم میں سے 4 نئے امیدواروں کے نام پر مشاورت کے بعد اعلان کیا جائے گا