پِنڈ کی کھجّی والی مسیت ابھی تک زیرِ تعمیر ہے- اندر ایک بہت بڑا مدرسہ بھی بن رہا ہے- کوئی تین سال سے یہ پروجیکٹ زیرِ تکمیل ہے- اس کی وجہ ساجدین کی بخیلی کے ساتھ ساتھ امام مسجد کی بار بار تبدیلی بھی ہے-مَلک پوُر میں گزشتہ تین سالوں میں تین امام بدلے جا چکے ہیں ، وجوہات آج تک سامنے نہیں آ سکیں- البتہ یہ امر طے ہے ملک میں جمہوریت تو پانچ سال چل سکتی ہے ، مَلک پُور کا امام سال ڈیڑھ سے زیادہ نہیں ٹِک سکتا
اس بار امام ذرا تگڑا ہے (جسمانی لحاظ سے)- خیر ہم نے کون سا کُشتی کرانی ہے- اپنے لئے تو یہی غنیمت ہے کہ نیا ہے- پرانا ہوتا تو فوراً پہچان لیتا کہ چندے کا وعدہ کر کے سال بھر روپوش رہنے والا بندہ مل گیا- سو اس بار کافی احتیاط کی- امام صاحب سے وعدہ تو درکنار مصافحہ کرنے سے بھی گریز کیا- مولوی کی یاری اور شیر کی سواری دونوں میں آج کل خطرہ ہے
مغرب کی نماز کے بعد کوئی سَٹھ ستّر بچّہ شور مچاتا ہوا مسجد میں آن گھُسّا- ان کی عمریں 6 سے 12 برس تک ہوں گی- یہ سپاروں والی الماری پر یوں جھپٹے گویا گندم کے کھیت پر چڑیوں کے غول- رحل پر قاعدے سجنے لگے- ہمارے زمانے میں رحل بھاری بھر کم لکڑی کے ہوا کرتے تھے ، اب ہلکی پھلکی پلاسٹک کے ہیں-امام صاحب حجرے سے برآمد ہوئے تو ان کے ہاتھ میں کینوُ کی سوٹی تھی- میں نے ایک ستوُن کی آڑ لی اور خود کو یقین دلانے لگا کہ سوٹی محض دکھانے کے واسطے ہے ، مار پِیٹ تو ہمارے زمانے میں ہوا کرتی تھی
استادِ محترم سامنے تشریف فرما ہوئے ، پھر ایک مقامی شخص سے محوِ گفتگو ہو گئے- بچوں نے اُستاد کو غافِل پایا تو ان کی ننّھی مُنّی شرارتیں جاگ اُٹھیں- لگے ایک دوسرے کے کان مروڑنے- جیسے باغ میں تلیّر لڑ رہے ہوں-استاد جی فارغ ہوئے تو بچّوں کی طرف نظرِ کرم فرمائی – چھڑی کا سہارا لے کر اُٹّھے تو بچّوں نے زور زور سے آموختہ دہرانا شروع کر دیا- جیسے درخت پر بارانی بِلّا چڑھ جائے تو لالیاں شور کرتی ہیں
بچّوں کی فریاد استاد جی کے مزاج کو ٹھنڈا نہ کر سکی- چنانچہ ایک طرف سے جو مولا بخش کی یلغار شروع ہوئی تو کشتوں کے پُشتے لگ گئے- کوئی کنڈ ایسی نہ تھی جس پر ڈنڈ نہ پڑی ہو- بچّے لہک لہک کر قاعدے سیپارے پڑھنے لگے- مسجد کے درودیوار ان کے شوروغُل سے لرز اُٹّھے
ستون کے پیچھے دھڑکتا میرا بوڑھا دل بیٹھنے لگا- سوچا دخل در معقولات کر کے اس ڈنڈا گیری کی حوصلہ شکنی کروُں مگر حوصلہ نہ ہوا- کہتے ہیں مولوی کے کاموں میں اور بجلی کی تاروں میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے-باہر نکلا تو ملک غلام رسول سے ملاقات ہو گئی – ملک صاحب چوتھی جماعت تک میرے ہم مکتب رہے ہیں- میں نے کہا یار یہ مولوی بہت پیٹتا ہے- 32 سال پہلے میں بھی ڈنڈا کھا کے مسجد سے بھاگا تھا- 23 سالہ عمر تک قرآن نہ پڑھ سکا- آج بھی اٹک اٹک کر پڑھتا ہوں
وہ مسکرا کر بولے تم شہر میں رہ کر نازک مزاج ہو گئے ہو- یہ ڈنڈا ہمیں پیچھے سے ملا ہے- ہم نے آگے ٹرانسفر کرنا ہے- چار کتاباں اسمانی لتھیاں ، پنجوا لتھیا ڈنڈہ- سارا دن ماں باپ کی جان کھاتے ہیں یہ بچّے- وہ اس آسرے پر صبر کرتے ہیں کہ شام کو مولوی سیدھا کر دے گا- اب مولوی بھی نواز شریف بن جائے تو سیدھا کون کرے ؟
میں نے فوراً پینترا بدل کر کہا حضرت میرا اعتراض مولوی پر نہیں ڈنڈے کی نوعیّت پر ہے- خیال رہے کہ ہمارے اجداد نے ہمیں بانس کا ڈنڈا دیا تھا- ایک ہفتہ تک نہ تو نشان جاتا تھا نہ درد- اگر ملک پور میں بانس ختم ہو گئے ہیں تو مجھے کہیے کراچی سے بھجوا دیتا ہوں مگر کینو کی سوٹی کو ڈنڈا کہہ کر قومی وقار کی توہین مت کیجیے – انہی بچّوں نے بڑے ہو کر کل پوری قوم کو ڈنڈہ دینا ہے- آپ انہیں کینو کی سوٹی دیں گے تو یہ قوم کو کیا دیں گے جھاڑو کا تِنکا ؟؟
ڈنڈا بدلیں جناب ۔۔۔ ڈنڈا


بشکریہ …. ظفر اقبال محمّد