intelligent086 (02-11-2018),Ubaid (02-10-2018)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ عدالت میں تحریری جواب جمع کروائیں اور یہ بتائیں کہ فیض آباد پر دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیسے استعمال ہوا۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا بھی حکم دیا ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع والے اچھی انگلش بولتے ہیں لیکن یہاں پر چار جملے لکھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت نے سویلین خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ کو اس آڈیو ٹیپ کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک فوجی افسر اپنے ماتحت سے فیض آباد دھرنے کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اگلے دو روز میں اس بارے میں رپورٹ جمع نہ کروائی گئی تو آئی بی کے سربراہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
آئی بی کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ فون ریکارڈ کرنا آئی بی کا کام نہیں ہوتا۔ اُنھوں نے کہا کہ آئی بی نے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگر آئی بی ایک وائس کو بھی ٹریس نہیں کر سکتا تو پھر پاکستان میں کون سا ادارہ وائس ٹریس کرسکتا ہے؟
سماعت کے دوران راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس کمیٹی کا ایک ممبر ملک سے باہر ہے، عدالت ایک ہفتے کا وقت دے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ بھی ملک سے باہر ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں رپورٹ نہیں دے سکتے، جس پر جسٹس شوکت عزیز نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ساتھ کھلواڑ کرنا بند کر دیں۔
بینچ کے سربراہ نے حکم دیا کہ اگر 12 فروری تک راجہ ظفرالحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کی گئی تو ذمہ داروں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی کا نام لیے بغیر کہا کہ موصوف نے فیض آباد دھرنے میں بیٹھ کر جو حرکت کی ہے قابل مذمت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ موصوف نے چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر جو نازیبا زبان استعمال کی ہے اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ایک ہفتے کی مہلت مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 فروری تک ملتوی کر دی۔
intelligent086 (02-11-2018),Ubaid (02-10-2018)
شوکت حسین صدیقی کا کیا کہنا بہت کچھ بے نقاب ہونا ہے۔
معلوماتی شیئرنگ کا شکریہ
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
اہم اور مفید معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks