intelligent086 (02-08-2018),Ubaid (02-08-2018)
بات ایک تعویز سے شروع ہو کر تعویز پر ہی ختم ہو گئ
مذھب ، مفہوم جس کا رستہ ہے ، رستہ بھی وہ کہ منزل جس کی قربِ الہی کے سوا کچھ نہیں- بدقسمتی یہ نہیں کہ ہم یہ رستہ کھو چکے ، ظلم یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے رستے کو مذھب کہنے پر بضد ہیں
حطیم میں کھڑا تھا کہ نگاہ دو بابوں پر پڑی- دونوں سن رسیدہ تھے اور بمشکل ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کعبہ کے سائے میں داخل ہوئے- حطیم کعبہ کا وہ حصّہ ہے ، جہاں چھت نہیں- اس کی گول دیوار تین چار فٹ اونچی ہے-یہاں نماز پڑھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے- چونکہ حطیم کا داخلی دروازہ ذرا تنگ ہے اس لئے یہاں رش بہت رہتا ہے
رات کے دو بجے تھے اور حطیم پر اژدھام قدرے کم تھا
دونوں بابے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حطیم میں چلے آئے- دیوارِ کعبہ سے نزدیک ہوئے تو ایک ہٹّا کٹّا شیخ ان کی راہ میں حائل ہو گیا- اس کا تعلق شاید وزراتِ مذھبی امور سے تھا
وجہء نزاع بابا کے گلے میں لٹکا ہوا تعویز تھا- ایک تعویز ، نصف انچ کاغذ پہ لکھا ایک چھوٹا سا تعویز
بابا کا خیال تھا کہ شاہ صاحب کا لکھا ہوا تعویز دیوارِ کعبہ سے مَس کر کے مزید بابرکت کیا جا سکتا ہے- جبکہ شیخ کا استدلال تھا کہ تعویز شرک کی علامت ہے اور شرک کی کوئ بھی علامت کعبہ کے قریب نہیں لا جا سکتی
شیخ احادیث سنا سنا کر بابا کو مائل کرنے لگا اور بابا تعویز پر ہاتھ رکھے آگے بڑھنے کی کوشش- شیخ نے کہا قال رسول اللّہ صلّی اللّہ علیہ وسلّم جس نے تعویز لٹکایا اس نے شرک کیا
بابا عربی سے نابلد تھا بالاخر ساتھی نے حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے سمجھایا کہ تعویز ہی کا پنگا ہے- تھوڑی دیر کو اتار لو ، بحث نہ کرو ، دنیا میں کوئ ایسا تعویز نہیں جو شیخ پر اثر کر سکے
بالاخر بابا نے تعویز اتار ہی لیا- مگر اب ایک نئ مشکل درپیش تھی- ادھر تعویز اترا ادھر شیخ نے ہاتھ آگے کر دیا تاکہ وزارتِ مذھبی امور شرک کی اس علامت کو جلد از جلد تلف کر سکے
اس پر بابے نے صاف انکار کر دیا- وہ نہیں چاھتا تھا کہ وطن واپس آ کر مرشد کے سامنے خِفّت اٹھانی پڑے- معاملہ مذھب سے زیادہ عقیدت کا تھا جو شروع سے اہل ھند کی جڑوں میں بیٹھی ہوئ ہے
بالاخر بابا نے کعبہ کو چومنے کا ارادہ ترک کر دیا اور حطیم سے باہر نکل گیا-شیخ دوسرے زائرین کی طرف متوجہ ہو گیا- عرب ماڈل آف اسلام اور انڈین ماڈل آف اسلام کا جھگڑا تمام ہوا تو ہم نے بھی اطمینان سے نوافل نیت لئے
یقیناً اس وقت بابا واپس آ چکا ہو گا اور شاہ صاحب کی قدم بوسی کر تے ہوئے بتلا رہا ہوگا کہ زور وہابی نے وی بڑا لایا ، پر تویت اساں وی نئیں دِتّا
اور شاہ صاحب نے بڑے فخر سے اپنے مرید کا کندھا تھپتھپا کر کہا ہو گا
ہمیں سب خبر ہے ہمیں سب خبر ہے ہم بھی وہیں موجود تھے اور تیری استقامت دیکھ رہے تھے لے اس خوشی میں ایک اور تعویز
بشکریہ .. ظفر اقبال محمّد
intelligent086 (02-08-2018),Ubaid (02-08-2018)
عمدہ اور خوب صورت انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Boht umda tehreer.
Bhai jan ap k is tehreer par boht kuch likhnai ko dil karta hai likn nahi likhon ga.
Kia karai janab ham esai muashirai mai rehtai hai, idhar kisi sai is barai mai bat karna apnai liye jagra mol lena hai,
Ap nai himmat ki itna kuch likha in k barai mai ham ap k himmat ko salam kartai hai.
smartguycool (02-08-2018)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks