یہ 80 کی دہائی کا آغاز تھا جب کراچی کے تعلیمی اداروں میں پہلی بار کلاشنکوف متعارف ہوئی۔ اگر سچ کو ’’حکمت‘‘ کی چادر میں لپیٹنے پر ثواب ملتا ہے تو یوں کہہ لیتا ہوں کہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم نے یہ کارنامہ انجام دیا اور اگر تاریخ کی صداقتوں کو واقعات کے درست تجزیئے کے لئے لاگ لپیٹ کے بغیر پیش کرنا بدستور دانشمندی ہے تو پھر کہنے دیجئے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں یہ لعنت اسلامی جمعیت طلبہ نے متعارف کرائی تھی اور یہ کلاشنکوفیں افغان جہاد میں جماعت اسلامی کی ہم ذہن حزب اسلامی کے ٹریننگ سینٹروں سے کراچی پہنچی تھیں۔ مرنجا مرنج نظر آنے والے میاں طفیل محمد کا دور ہی و ہ دور ہے جس میں جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم متشدد جماعت کے طور پر ابھریں۔ اس زمانے کے کراچی میں اسلام پھیلانے کی غرض سے جماعت اسلامی مساجد پر قبضے کے معاملات میں ملوث ہوئی اور اس ضمن میں یہ مساجد کے ائمہ کرام کی تذلیل سے بھی دریغ نہ کرتی۔ دوسری طرف اسلامی جمعیت طلبہ تھی تو وہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں دہشت کی علامت بن بیٹھی تھی۔ خدا کے شکر کے بعد قاضی حسین احمد مرحوم اور سراج الحق کو داد دیئے بنا چارہ نہیں کہ اول الذکر جماعت اسلامی کے امیر بنے تو انہوں نے کراچی جماعت پر خصوصی توجہ مرکوز کرکے اسے لگام دے ڈالی اور جماعت اسلامی کو تیزی سے راہ اعتدال کی جانب لے آئے۔ منور حسن جیسے جذباتی رہنماء کی جگہ پروفیسر غفور احمد زیادہ فعال نظر آنا شروع ہوئے تو حالات خود بخود بہتر ہوتے چلے گئے۔ قاضی صاحب نے کراچی جماعت کو پابند کروایا کہ آپ کو کراچی کی مساجد کا کنٹرول حاصل کرنے کی قطعا اجازت نہیں۔ آپ نے درس قرآن کی مجالس منعقد کرنی ہیں تو گھروں پر کیجئے۔ اور یہ درس قرآن کی مجالس ہی تھیں جن کی آڑ میں کراچی جماعت مساجد پر قبضے کی واردات انجام دیتی تھی۔ ساتھ ہی قاضی صاحب نے کراچی کے ائمہ کے لئے جماعت کے روزنامے کی اعزازی کاپی ، تفہیم القرآن کا سیٹ اور کچھ دیگر اشیا ملا کر تحائف کے سیٹ بھجوا کر پیغام محبت بھی دیا۔ اسی طرح جب لالہ سراج الحق اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بنے تو انہوں نے اس ابھرتی شدت پسند تنظیم کا مزاج ہی بدل کر رکھ دیا۔ وہ دن جائے یہ دن آئے نہ جماعت اسلامی مساجد پر قبضوں کے چکر میں پڑی اور نہ ہی اسلامی جمعیت طلبہ نے ہتھیار لہرانے کی مزید جرات کی۔
قاضی حسین احمد مرحوم اور سراج لالہ کی مخلصانہ اور دیانتدارانہ کوششوں کے مثبت نتائج جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے سدھرنے کی صورت تو نکل آئے لیکن تب تک دیر بہت ہوچکی تھی۔ میاں طفیل محمد کے دور کی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی جارحیت کے ردعمل میں ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ تنظیم وجود میں آچکی تھی۔ وہ کلاشنکوفیں جو 80 کی دہائی کےآ غاز سے کراچی کی درسگاہوں میں گرجا کرتی تھیں ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کے ہاتھوں میں پہنچیں تو 1986ء کے بعد سے کراچی کے گلی کوچوں میں گرجنی شروع ہوگئیں۔ اس زمانے میں اس شہر کی تاریخ میں وہ وہ قتل عام ہوئے کہ آج تیس سال بعد بھی یاد کرکے روح کانپ اٹھتی ہے۔ شہر قائد ایک بہت بڑے مقتل میں بدلتا چلا گیا اور اس مقتل کے کئی علاقے تو نوگو ایریاز میں بدل گئے۔ لسانی تعصبات نے پہلے جنم لیا اور پھر اس شدت پر پہنچ گئے کہ یہ شہر مہاجر پختون ، مہاجر پنجابی، مہاجر سندھی اور مہاجر بلوچ کے خونریز تصادم دیکھ چکا ۔ مشرف دور کے بعد لسانی تصادم پس منظر میں چلے گئے اور ان کی جگہ اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ نے لے لی۔ یہ ٹارگٹ کلنگ اس حد تک منظم تھی کہ مخصوص دورانیوں میں مخصوص طبقات کو نشانہ بنایا گیا، مثلا ایک دورانیہ ایسا آیا کہ ڈاکٹرز کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ ایک دورانیے میں علماء دین کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ ایک دورانیے میں تاجروں کی شامت آگئی۔ اور ایک دورانیہ وہ بھی آیا جب یونیورسٹیز کے اساتذہ کا قتل عام شروع ہوا۔ اگر آپ ان چاروں طبقات پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ان کو کیوں نشانہ بنائے گا مگر یہ چاروں طبقے منظم طور پر نشانہ بنے۔
خدا خدا کرکے نون لیگ کا موجودہ دور حکومت آیا تو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وقت ضائع کئے بغیر کراچی آپریشن کا آغاز کرکے شہر کا امن لوٹانے کی سنجیدہ کوششیں شروع کردیں۔ کچھ عرصے بعد سانحہ اے پی ایس ہوا تو دہشت گردی کے خلاف ملک گیر آپریشن کا بھی آغاز ہوگیا جس سے کراچی آپریشن میں مزید تیزی آگئی۔ آج ہم 2018ء کے آغاز میں کھڑے ہیں تو کراچی کی ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کو قابو ہوئے تین سال ہوچکے مگر اب ایک نئی آفت کھڑی ہوگئی ہے اور بدقسمتی دیکھئے کہ یہ آفت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کچھ کالی بھیڑوں کے ہاتھوں اس شہر کے باسیوں پر مسلط ہے۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا معاملہ تو میڈیا میں آچکا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا اب بھی پوری بات نہیں بتا رہا۔ راؤ انوار صرف نقیب اللہ کے قتل میں ہی نہیں بلکہ کئی دیگر مشکوک پولیس مقابلوں میں بھی ملوث ہے اور صرف کلنگ ہی اس کے کریڈٹ پر نہیں بلکہ وہ اربوں روپے کی کرپشن میں بھی ملوث ہے۔ ملیر ضلع ایران سے سمگل ہوکر آنے والے پٹرول کی آخری منزل ہے اور یہاں لاکھوں گیلن تیل یومیہ فروخت ہوتا ہے۔ اس پٹرول کا کار و بار کرنے والا ہر شخص بتاتا ہے کہ ہمارے ہر لیٹر پر ایک روپیہ راؤ انوار کی جیب میں جاتا ہے۔ اور یہی وہ ضلع ہے جہاں سے پوری کراچی کی تعمیرات کے لئے ریتی بجری جاتی ہے۔ اس ریتی بجری میں بھی راؤ انوار کا حصہ زبان زد عام ہے۔ پھر اسی ضلع میں لاکھوں ایکڑ زمینوں پر قبضے کی الگ داستانیں اور ہر داستان کا دیباچہ راؤ انوار سے ہی منسوب ہے۔ بد قسمتی کی انتہاء دیکھئے کہ اب سندھ رینجرز سے بھی عوامی شکایات سامنے آرہی ہیں اور عجیب و غریب داستانیں گردش کر رہی ہیں۔ میری سندھ رینجرز کے بعض متاثرین سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں اور جو کچھ سنا وہ ہوش اڑ انے کے لئے کافی تھا۔ اس ضمن میں ایک حساس ادارے کے اہم ذمہ دار سے راولپنڈی میں رابطہ کیا تو انہوں نے سندھ رینجرز کے کرتوتوں کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ اس کے اسباب سے بھی تفصیل سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی خوشخبری بھی سنادی کہ راولپنڈی اس معاملے کو پوری سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے اور اس کے سد باب کے لئے دور رس نتائج والا منصوبہ تشکیل پا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب ہو یا رد الفساد دونوں ہی کے بہت زبردست نتائج نکلے ہیں اور ملک کے قریہ و بازار ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ محفوظ ہوتے جا رہے ہیں لیکن یہ جو کچھ راؤ انوار یا سندھ رینجرز کی بعض کالی بھڑیں کر رہی ہیں اس سے خدا نخواستہ ان کامیابیوں کو ریورس گیئر بھی لگ سکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ چونکہ آپریشن رد الفساد کے کمانڈر ہیں سو انہیں کراچی کے معاملات پر خصوصی توجہ دینی ہوگی کیونکہ اس شہر کے باسی الطاف حسین اور رحمان ڈکیت کے آسمان سے گر کر سندھ رینجرز کے کھجور میں اٹکنے لگے ہیں




بشکریہ …. رعایت اللہ فاروقی