intelligent086 (01-26-2018),Ubaid (01-28-2018)
ملک میں لعنت کا بازار گرم ہے، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو…. لعنت ہی لعنت، دامنِ کوہ سے بحیرہ ہند تک ہواؤں میں لعنت فضاوں میں لعنت، صد لعنت، ہزار بار لعنت، اور اگر آپ مجھ سے متفق نہیں تو آپ پر بے شمار لعنت اور اگر میں آپ سے متفق نہیں تو مجھ پر بے حساب لعنت!
میں نہیں سمجھتا یہ طرزِ گفتگو آپ کو قبول ہو گا، ہونا بھی نہیں چاہیے۔ لاہور کے جلسے سے یہ معاملہ آغاز ہوا اور قومی اسمبلی سے ہوتا ہوا سندھ اسمبلی تک جا پہنچا،کہیں لعنتیں کہیں مزید لعنتیں، اور ابھی یہ ’لعنتی‘ سلسلہ جاری ہے، کہاں دیکھئے تھمے۔مسئلہ یہ ہے کہ آپ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کے لیڈر ہیں اور آپ جب اُس کوکھ پر لعنت بھیجتے ہیں جس نے آپ کو سیاسی جنم دیا ہے تو آپ کے حامی لامحالہ اپنے قائد کا دفاع کرنے چل پڑتے ہیں، وہ بھی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہیں، اور نتیجتاً خود کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ پھر اس ساری کوشش کا کیا حاصل جو پارلیمنٹ کے اندر جانے کے لئے کی جا رہی ہے۔’ تبدیلی‘ کا چشمہ تو پارلیمان سے ہی پھوٹ سکتا ہے، جتنی بھی تبدیلی آپ کے پی کے میں لا سکے ہیں وہ صوبائی حکومت کی برکت ہی تو ہے۔ اگر قوم کا ایک بڑا حصہ اُس شاخ کے بارے میں کنفیوز ہو گیا جس پر ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں تو نقصان کس کا ہو گا؟
اگلی اسمبلی میں اگر آپ کی جماعت کی اکثریت ہوئی اور کسی نے اُس اسمبلی پر کسی بھی بہانے لعنت بھیجی تب بھی ہم یہی کہیں گے۔ کیونکہ ایک منتخب پارلیمان پر لعنت بھیجنا بائیس کروڑ لوگوں پر لعنت بھیجنے کے مترادف ہے۔اور آپ سے کس نے کہہ دیا کہ پارلیمان کسی عمارت کا نام ہوتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر کل صبح پارلیمنٹ کی عمارت کسی وجہ سے گر جائے تو کیا پارلیمنٹ ختم ہو جائے گی؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ منتخب پارلیمنٹ سنگ و خشت سے ورا قوم کی اِجتماعی بصیرت کی عکاس ہوتی ہے۔دُنیا کی ہر جمہوریت میں اپوزیشن کو یہی شکایت ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت ڈلیور نہیں کر رہے، عوام کو فایدہ نہیں پہنچا رہے، اِسی بنیاد پر اگلے انتخابات میں ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ لیکن کہیں بھی ادارے کو، بلکہ سپریم ادارے کو بے توقیر نہیں کیا جاتا۔ یہ حرکت علّامہ صاحب کریں تو سمجھ میں آتا ہے، ’راولپنڈی‘ کے شیخ صاحب کریں تو قابِل فہم ہے، مگرآپ تو ملک کے دو مقبول ترین رہنماؤں میں شامل ہیں، عوام ہی آپ کا سب کچھ ہیں، جمھوریت اور پارلیمان ہی آپ کا واحد راستہ ہیں، اور جنرل مشّرف کی حکومت میں شامِل نہ ہو کر یہ آئینی راستہ تو آپ نے خود چُنا تھا۔ اب اس پر اِستقامت سے چلتے رہیے، راستے میں دِل مت ہارئیے۔اگر کوئی اِدارہ ڈلیور نہیں کر رہا تو آواز بلند کیجیے، اِداروں سے شکایت پیدا ہو جائے تو اُ ن کے فیصلوں پر تنقید آپ کا حق ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کی حالتِ زار تو سب جانتے ہیں، پندرہ لاکھ سے زائد کیس اِلتوا کا شکار ہیں، لگ بھگ اڑتیس ہزار تو صرف عدالتِ عظمی کی مقّدس سماعتوں سے ٹکرانے کے منتظر ہیں۔ کوئی کہتا ہے ’وکیل کیا کرنا، جج کر لیتے ہیں‘، فوجی عدالتوں اور’ پولیس مقابلوں‘ کا جواز بھی انصاف کے نظام میں تاخیر کو قرار دیا جاتا ہے۔ مشورہ دیجیے، ایسے میں کیا کیا جائے؟ لعنت بھیجی جائے؟اِسی طرح اور بھی قومی اِدارے ہیں جن کی حرکتوں پر ’پُر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا‘ مگر کیا اُن پر لعنت بھیج دیں؟ لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں، اِدارے مستقِل ہوتے ہیں۔ کل اِس پارلیمنٹ میں ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، ولی خان اور بے نظیر بیٹھے تھے، آج آپ ہیں، کل نئے لوگ آ جائیں گے۔ افراد کو فنا ہے، اِدارے بقا کا نشان ہوتے ہیں۔ اِداروں کی عزت کیجیے اور بالخصوص اُس اِدارے کی جس کا آپ حصہ ہیں۔ اِس سے آپ کی عزت ہو گی۔ذرا غور کیجیے، کبھی کسی اور اِدارے کے حاضر سروس ممبر نے اپنے اِدارے پر لعنت بھیجی ہے؟ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی افسر یا جج اپنے اِدارے کے بارے ایسی زبان استعمال کرے۔ اُنہوں نے تو Contempt of Courtکا قانون بنا رکھا ہے، اور آپ خود کو گالی دے رہے ہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ کسی دُوسرے ادارے کے فرد کو کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے۔ کیا آپ ایسی ریاست کا تصور کر سکتے ہیں جہاں ایک اِدارہ دُوسرے کے بارے ایسی زبان برت رہا ہو ؟اگر آپ اپنے اِدارے کی اہانت کریں گے تو کل دوسروں کو بھی حوصلہ ہو گا، اور دلیل کے طور پر آپکی گواہی پیش کی جائے گی۔ اِس طرح تو گلشن کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔اور اگر آپ پر یہ کلامِ نرم و نازُک بے اثر ہے اور آپ اِنشراحِ صدر حاصل کر چکے ہیں کہ پارلیمان چوروں اور ڈاکوؤں کی مستقِل آماج گاہ ہے جس سے نہ کبھی کوئی فیض برآمد ہوا ہے نہ آئندہ ایسی کوئی اُمید ہے، کیونکہ آپ کے اِرد گِرد بھی یہی Electables اکھٹے ہیں، اور اگر آپ بھی اِنتخاب جیتے تو اِسی قماش کے لوگ پارلیمان میں آئیں گے۔ تو پھر رستہ بتائیے، پارلیمان سے ہٹ کر کیا طریقہ ہے آپ کے دِماغ میں؟ کیا آپ سنگینوں کی چھاﺅں میں وِزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانا چاہتے ہیں؟ یا آپ چئیرمین ماﺅ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں؟ یا اِمام خمینی کا اِتباع کرنا چاہتے ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟
اور اگر واقعی آپ نے ’اِنقلاب‘ کا راستہ چُن لیا ہے تو آپ کو مبارک ہو، بلکہ ساری قوم کو مبارک ہو، کیونکہ اس ملک کا ایک ایک شہری اِس گلے سڑے پیپ بھرے نظام سے نِجات چاہتا ہے، اِنقلاب چاہتا ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں اِنقلاب کی کچھ شرائط ہوتی ہیں۔ اِ نقلاب کی پہلی شرط ہمہ گیریت ہوتی ہے، نظام کا مطلب فقط پارلیمان تو نہیں ہوتا، نظام تو کئی اِداروں سے مِل کر بنتا ہے، تو انقلاب کی سمت پہلا قدم اُٹھائیے، پورا سچ بولئیے، اور ایک ایک قومی اِدارے کا نام لے کر اُس پر لعنت بھیجئے۔ بلکہ وہ تلخ تر لفظ بولئے جو آپ پارلیمان کی شان میں اِستعمال کرنا چاہتے تھے مگر کمال مہربانی سے رک گئے تھے۔ (ویسے لعنت سے تلخ لفظ کیا ہو گا کہ اس سے آگے تو خادِم حُسین رِضوی کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے)۔
بشکریہ …. حماد غزنوی
intelligent086 (01-26-2018),Ubaid (01-28-2018)
عمدہ اور خوب صورت انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks