حکایت مولانا رومی (اونٹ اور چوہا)
ایک اونٹ جنگل سے گزر رہا تھا اور اسکی مہار زمین پر گِھسٹ رہی تھی۔ ایک چوہے نے اسے دیکھا تو دل میں کہا کہ اسکو یوں کھلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسکی مہار تھام لینی چاہیے تاکہ یہ شِتر بے مہار نہ کہلاۓ۔ پھر اس نے دوڑ کر اسکی مہار منہ میں لے لی اور آگے آگے روانہ ہو پڑا۔ اونٹ نے بھی اس سے مذاق کیا اور بے تکلف ہو کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کچھ دور چل کر اونٹ نے پوچھا ، اے میرے رہبر! تو اس قدر ڈر کیوں رہا ہے؟ چوہے نے شرمندگی سے کہا، بھائی یہ پانی دیکھ کر میرا دِل ڈر گیا ہے۔ اونٹ نے کہا تو نہ ڈر میں ابھی دیکھ کر بتاتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ اور پھر بولا کہ آجا پانی تھوڑا ہے، دیکھ لے میرے زانوں تک نہیں ڈوبے تو کیسے ڈوب سکتا ہے۔ چوہے نے کہا واہ بھئ واہ، یعنی تم مجھے غرق کرنا چاہتے ہو، جو پانی تمہارے زانو تک گہرا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہو گا۔
یہ سن کر اونٹ نے گہرا سانس لیا اور تحمل سے بولا کہ کیا تم اسی برتے پر میرے پیشوا بنے تھے؟ آئندہ دعویٰ ہمسری ٖصرف چوہوں کے ساتھ ہی کرنا کسی اونٹ کے منہ مت لگنا۔ چوہا بھی سٹپٹا گیا اور بولا میری توبہ آئندہ ایسی جرات نہیں کرونگا۔ اب خدا کے لئے مجھے پار اتار دے۔ اونٹ کو رحم آ گیا اور بولا کہ آ میری پیٹھ پر بیٹھ جا تیرے جیسے لاکھوں چاہوں کو پار اتار سکتا ہوں۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی اس حکایت کا مطلب صاف ہے کہ جب تم میں بادشاہ یا رہنما یا مُرشد بننے کی صلاحیت نہ ہو تو رعیت بن کر گزارا کرو اور خدمت گزاری سے عزت حاصل کرو۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Nyc Sharing
t4s
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks