اسلام کیا ہے۔
مریم جمیلہ
اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ تصور ہے کہ انسان اللہ کا بندہ ہے۔ عربی میں اللہ کے بندے کو عبداللہ کہتے ہیں۔ یہ نام مسلمان ملکوں میں عام پایا جاتا ہے۔ اسلام کے حقیقی معنی ہیں اللہ کی مرضی کے آگے جھک جانا۔ وہ سب لوگ جو اللہ کی اطاعت و رضا کی اس زندگی کو اختیار کرتے ہیں مسلمان کہلاتے ہیں۔ چونکہ اللہ کی ذات برترو بالا ہے اور وہی ساری کائنات کی فرماں روا ہے، اس لیے مسلمان ذہن کو کلیسا اور ریاست کی تفریق کا مسیحی تصور بالکل غیرمنطقی نظر آتا ہے۔ اسلامی حکومت کا مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ ہے، جو قرآن و سنت میں محفوظ ہے۔ مسلمان حکمران نہ تو خود قانون کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے، نہ وہ اپنے طور پر کوئی نیا قانون بنانے کا حق رکھتا ہے۔ شریعتِ الٰہی کو کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔ ہاں، اس کی تعبیر کی جاسکتی ہے، وہ بھی کڑی حدود کے اندر۔ ہر چیز کا مالک اللہ ہے۔ انسان کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ کلیتاً اللہ تعالیٰ کا دستِ نگر ہے۔ ہر وہ شے جو انسان کے قبضہ و تصرف میں ہے، حتیٰ کہ اْس کا جسم بھی۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے محض مستعار دی ہے، تاکہ وہ اسے حتی الامکان انتہائی معقول طریقے سے کام میں لائے۔ اگر کوئی شخص اِس ذمّے داری سے پہلوتہی کرتا ہے تو وہ عبرت ناک سزا پائے گا۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنے کے لیے بوقت ضرورت ہرشے اپنی ذاتی مسّرت، اپنا عیش و آرام، اپنی خواہشات، آسایشیں، دولت، مال و متاع، حتیٰ کہ زندگی تک راضی خوشی قربان کردینے میں کوئی پس و پیش نہ کرے۔ اِس کا اجر اْسے ابدی مسرت اور قلبی اطمینان کی صورت میں ملے گا۔ اللہ کا بندہ ہونے کا مطلب انسانوں کے جور واستبداد سے آزادی ہے۔ سچا مسلمان کسی انسان سے نہیں ڈرتا، وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔مسلمان دنیا کو دو مخالف کیمپوں دارالاسلام اور دارالکفر میں تقسیم کرتا ہے۔ نوعِ انسان کی بدترین مصیبت، غربت، بیماری یا ناخواندگی نہیں، کفر ہے۔ نوعمر حاملہ دُلھنیں، کنواری مائیں، امراضِ خبیثہ، اسقاطِ حمل، زنا بالجبر، حرامی بچے، لاوارث شرابی اور جنگ جویانہ وطن پرستی، سب کفر کے منطقی نتائج اور تلخ ثمرات ہیں۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے، سب سے بڑی نیکی اور بھلائی اْسی سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس کفر اللہ تعالیٰ کے خلاف کھلی بغاوت ہے جسے کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان اپنے دوسرے ہم چشم انسان کی سیرت کا اندازہ اْس کے عقیدے کی صحت اور روزمرہ زندگی میں اس کے عملاً نفاذ کی اساس پر کرتا ہے۔ کسی شخص کی نسل، قومیت، دولت یا معاشرتی حیثیت کا، اس کے حقیقی انسانی وصف سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک شخص جس چیز پر ایمان لانے کا مدعی ہے، اگر اْس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ محض ایک منافق ہے، فی الحقیقت وہ سرے سے ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ایک مسلمان کے نزدیک انسان کے کسی فعل کا دارومدار اْس کے عقائد پر ہے۔ کیونکہ فوق الفطرت دینی بنیادوں کے بغیر وہ حْسنِ عمل اور اخلاقیات کے وجود کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سچا مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔ موت وہ گھاٹی ہے جس سے گزر کر ایک مسلمان اَبدی زندگی سے ہمکنار ہوتا اور قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ مسلمان جب بیمار ہوتا ہے تو صحت یاب ہونے کے لیے ہرممکن علاج معالجہ کرواتا ہے، لیکن بایں ہمہ اگر تمام طبی وسائل اس کی صحت بحال کرنے اور زندگی بچانے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔ اْس کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جان دار کی زندگی کی مدّت پہلے ہی سے مقرر کردی ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے مرسکتا ہے نہ دنیا بھر کی دوائیں اور طبیب مل کر اس کی موت کو آنِ واحد ہی کے لیے مؤخر کرسکتے ہیں۔سچا مسلمان متعصب نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک تجسس اور غیبت کی ممانعت کرتا ہے۔ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی غلط کار کیوں نہ ہو، جب تک وہ اپنے دین کو علانیہ نہیں چھوڑتا، اْسے دوسرا مسلمان دینی و معاشرتی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ مسلمان نہ تو دوسرے مذاہب پر دستِ جورو وتعدّی دراز کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے سایے میں مذہبی اقلیتیں خودمختار اور سالم گروہوں کی صورت میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے مذہبی قوانین پر چلنے، اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دینے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو دوام بخشنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مزیدبرآں انھیں جان و مال کا مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ بحیثیت انسان مساوی انصاف اور عمدہ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم شریعتِ اسلامی کے اِن تمام عطا کردہ حقوق کے باوجود کسی غیرمسلم کو مسلمان کا ہم سر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسلامی حکومت کے سایے میں بسنے والے غیرمسلم، فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہوتے ہیں، کیونکہ جو لوگ اسلام کی دعوت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس کی خاطر جنگ کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر کسی غیرمسلم کو حکومت کے کلیدی مناصب پر بھی فائز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان نسلی و قومی اختلاف کے باوجود دوسرے مسلمانوں کے ساتھ گہری قرابت محسوس کرتا ہے، لیکن غیرمسلموں کے درمیان وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی پاتا ہے۔
اسلام ایک عالم گیر دین ہے۔ اْس کے دروازے تمام نوعِ انسانی پر کھلے ہیں۔ وہ غیرمسلموں کو اپنی آغوشِ رحمت میں لانے کے لیے سرگرم جدوجہد کرتا ہے۔ مسیحیوں کے برعکس ہمیں پیشہ ور مبلّغین کی ضرورت نہیں۔ ہر مسلمان بجاے خود ایک مبلّغ ہے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت، اپنی امکانی حد تک، اْس کا مقدس فریضہ ہے۔ بہت سے غیرمسلم یہ جان کر ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ دنیا کے وسیع و عریض علاقوں میں خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں اسلام عام عرب اور ہندستانی تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ اس مقصد کے لیے نہ تو جبروتشدد اور قوت سے کام لیا گیا نہ ان ممالک کو سیاسی طور پر کبھی محکوم بنایا گیا۔ یہ نتائج صرف اس لیے رْونما ہوئے کہ ان تاجروں اور بیوپاریوں نے پہلے اسلام کو پیش کیا اور پھر کاروبار کی طرف توجہ دی۔
(ترجمہ: آباد شاہ پوری)
Bookmarks