ایک روز ہم جناح سپر میں کھڑے وکیل بابو کا انبکس میسج پڑھ رہے تھے کہ پیچھے سے ایک غراتی نسوانی آواز خنجر بن کر کان کے رستے دل میں اتر گئی
بڑے میاں ! راستہ چھوڑئے
پلٹ کر دیکھا تو ٹائٹ جینز پہنے ایک پنکی ٹائپ لڑکی آنکھوں میں زہر لئے کھڑی تھی، ہم نے اپنی آنکھوں کے ہاتھ بڑھا کر وہ زہر پنکی کی آنکھوں سے لیا اور غٹا غٹ پی کر راستہ خالی کردیا. پنکی گزرتے گزرتے بڑبڑائی
پتہ نہیں کہاں سے چلے آتے ہیں
جی تو کیا کہدیں، کاش ! تم پیرنی ہوتیں پھر بتاتے کہ ہم کہاں سے چلے آتے ہیں مگر وکیل بابو کا لحاظ کرکے کہہ نہ سکے
آج کراچی روانگی کے لئے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پنکی ائیرہوسٹس کے یونیفام میں چہرہ گلاب کئے کھڑی ہے. ہائے ہائے ! ہائے ! ایسا موقع تو خدا دے اور بندہ لے ! دل میں سوچا، وکیل بابو ! آج تو تمہارا بھی لحاظ نہ کریں ! پنکی مسکراتے ہوئے بولی
بورڈنگ کارڈ دکھائیے سر
خبردار ! جو سر کہا، بڑے میاں کہئیے ! بڑے میاں
پنکی کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور دوسرا گیا، وہ سمجھ گئی کہ لوگ پتہ نہیں کہاں سے صرف اس جناح سپر ہی نہیں آجاتے جہاں پنکی ڈارلنگ بن کر مٹکتی پھرتی ہے بلکہ اس جہاز پر بھی آجاتے ہیں جہاں پنکی کو قدرت نے “خدمت” پر مامور کرکے کھڑا کر رکھا ہوتا ہے. وہ انجان بنتے ہوئے بولی
میں سمجھی نہیں سر
ہم ذرا سیٹ پر بیٹھ لیں پھر تفصیل سے سمجھاتے ہیں آپ کو
پنکی بورڈنگ کارڈ دیکھتے ہوئے بولی
سر ! آگے جا کر لیفٹ پر آپ کی سیٹ ہے
ہم آپ کو کس اینگل سے لیفٹسٹ نظرا آرہے ہیں ؟ ہم سوشل میڈیا ضرور زیادہ استعمال کرتے ہیں مگر سوشلسٹ ہیں نہیں
سر! عارضی طور پر بیٹھ جائیے، فلائٹ روانہ ہو جائے تو رائٹ میں ایڈجسٹ کردیں گے
فلائٹ روانہ ہونے لگی تو جہاز کے ساؤنڈ سسٹم پر پنکی کے روایتی اعلانات گونجنے لگے
کپتان مشٹنڈے خان اور ان کا عملہ آپ کو کھوتا ریڑھا ائرلائن پر خوش آمدید کہتا ہے وغیرہ وغیرہ
ان اعلانات کی خاص بات یہ تھی کہ آج پنکی کی آواز میں کھنک کی جگہ گھبراہٹ نے لے رکھی تھی، اندیشہ تھا کہ وہ سفر کی جگہ کھانے پینے کی دعاء پڑھ دے گی مگر جس نے نوکری کے لئے صرف سفر کی دعاء رٹ رکھی ہو وہ غلطی سے کوئی اور دعاء پڑھتی بھی تو کیسے ؟ بچت ہو گئی
فلائٹ روانہ ہوئی تو کچھ ہی دیر میں پنکی اخبارات کا بنڈل اٹھائے آ گئی
سر ! اردو یا انگلش ؟
پڑھ تو ہم اردو ہی پاتے ہیں مگر اسے ساڑنے کے لئے انگریزی اخبار مانگ لیا. پہلے ہی صفحے پر عمران خان اور پیرنی کی تصاویر چھپی تھیں، ہم نے خان صاحب کی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
یہ کون ہے ؟
عمران خان ہیں سر
اور یہ خبر کیا بتاتی ہے ؟
خبر شادی کا بتا رہی ہے سر
غلط ! بالکل غلط ! پہلی بات یہ کہ یہ تصویر ایک بڑے میاں کی ہے اور دوسری یہ کہ خبر یہ بتاتی ہے کہ کسی بڑے میاں کو ایزی نہیں لینا چاہیے، وہ کسی بھی وقت ثابت کر سکتا ہے کہ ابھی تو میں جوان ہوں
یہ سنتے ہی پنکی گھبرا کر پیچھے ہٹی اور تیر کی طرح جہاز کے اگلے حصے میں پہنچ گئی، وہاں ایک مشٹنڈہ سروس کر رہا تھا، اس کے کان میں کچھ بولی تو جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا. پھر وہی مشٹنڈہ جہاز کے پچھلے حصے میں آگیا اور آخر تک وہیں سروس کرتا رہا. جہاز کراچی اتر چکا اور مسافر جہاز سے نکلنے لگے تو پنکی دروازے پر کھڑی سب کو مسکرا مسکرا کر اللہ حافظ کہے جا رہی تھی، ہماری باری آئی تو رخ دوسری طرف پھیر کر اللہ حافظ کہا، ہم جہاز سے نکل کر دو چار قدم گئے اور اچانک مڑ کر پنکی کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھوں میں وہی جناح سپر والا زہر نظر آیا، اس بار وہ منہ سے تو کچھ نہ بولی لیکن اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا
بڑے میاں ! تم ذرا اگلی بار جناح سپر آؤ تو سہی
بشکریہ ….. رعایت اللہ فاروقی
Bookmarks