سکول جانے سے پہلے
بیگم صفیہ جمیلبچپن کے ابتدائی زمانہ میں ہر بچہ اپنی خاص رفتار سے نشوونما پاتا ہے۔ سکول جانے سے پہلے کی عمر میں اس کے ارتقا کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ اس کا جسم اب اتنی تیزی سے نہیں بڑھتا لیکن اس کے ذہن کے بڑھنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ماحول سے لین دین کا طریقہ سیکھ جاتا ہے۔ اس وقت بچے کے لیے مختلف قسم کے تجربات کے لیے مواقع مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن کے ذریعے وہ اپنے بڑھتے ہوئے فہم اور مہارت کو آزما سکے۔ یہ مہارت اسے بتدریج حاصل ہوتی ہے۔ شروع میں بچہ صرف مصروف رہنے کی خاطر کچھ کرتا ہے اور بعض دفعہ ایک ہی حرکت کو بار بار دہراتا ہے۔ وہ دن میں کئی بار سیڑھیاں اترتا چڑھتا ہے۔ لکڑی کے ٹکڑوں کا مینار بناتا، گراتا اور پھر بناتا ہے۔ چار یا پانچ سال کی عمر میں وہ مختلف قسم کے کھیلوں کی اہمیت کو سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ایک تین سال کا بچہ محض سیڑھیاں چڑھنے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا ہے۔ پانچ سال کی عمر میں وہ اچھا لڑکا کہلانے کی خاطر سیڑھیاں چڑھتا ہے۔ اسی طرح لکڑی کے ٹکڑوں کا مینار بنانے سے وہ اپنی اعصابی قوتیں ہی نہیں آزماتا بلکہ اپنی سمجھ کو بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ لکڑی کے ٹکڑوں کا قلعہ یا محل بنا کر اپنے تخیل کو فروغ دیتا ہے۔ تصویر کشی میں دلچسپی پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کی تصویریں اب محض پنسل کی لکیریں نہیں ہوتیں بلکہ بامعنی نقش و نگار ہوتے ہیں جن میں وہ حقیقت کی عکاسی کی کوشش کرتا ہے۔ عمر کی اس منزل پر بچے کو حوصلہ افزائی کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔ عمر کے دوسرے سال کے آخر میں اعصابی اور ذہنی اختیار ایک دوسرے سے زیادہ متعلق نہیں ہوتے۔ اس کی ذہنی صلاحیتیں حالات کے مطابق عمل کرنے کے لیے آزاد ہوتی ہیں۔ لیکن اب بچے کا اپنی ذات کے متعلق تصور زیادہ واضح نہیں ہوتا۔ بڑوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچے کی ذہنیت کو سمجھ کر اس سے برتاؤ کریں اور اس کی بساط سے بڑھ کر توقعات نہ رکھیں۔ اس طرح بچوں کی غلطیوں اور خطاؤں کو سمجھنا اور برداشت کرنا ہمارے لیے زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ بلکہ ہم ان کی بھولی بھالی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں ہم نے بچوں کی غلط پرورش تو نہیں کی۔ یا کہیں ہمارے بچے میں کوئی غیرمعمولی بات تو نہیں جس کی وجہ سے وہ ایسی عجب حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ وقت اور جگہ کی ماہیئت کو سمجھنے کے بعد بچہ اپنے گردوپیش کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ نظم پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ماحول سے اپنی ذات کی علیحدگی کا احساس ہوجانے کے بعد وہ دنیا کی ہر چیز کو انفرادی نقطہ نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ اس دنیا میں بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں لیکن یہ چیزیں اور یہ لوگ بچے کی زندگی پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں اور جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے وہ ان پر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟ اس معاملے میں بچے کو وہ انسان بہت اہم نظر آتے ہیں جن کا اس کی ابتدائی زندگی سے براہ راست تعلق رہا ہو۔ اسے انسانوں کی اس دنیا میں دو قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں: بڑے اور بچے۔ وہ دونوں سے متعلق ہوتا ہے بلکہ دونوں کا مرکز ہوتا ہے۔ پہلے وہ بڑوں کی دنیا کو پہچانتا ہے، پھر اپنی ذات کو اور آخر میں دوسرے بچوں کو۔ اس کے شعور میں یہ تبدیلی دو اور ساڑھے تین سال کی عمر میں واقع ہوتی ہے۔ ساڑھے تین سال کی عمر میں وہ چند بچوں سے دوستی کر لیتا ہے اور دوسروں کو اپنی صحبت سے خارج کر دیتا ہے۔ لیکن وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ ان کی انفرادی حیثیت کو سمجھتا ہے اور ان کی خصوصیات کو پہچانتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اپنے اور والدین کے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ کیونکہ انہیں تعلقات پر اس کی خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی نظروں میں ماں کیا اہمیت باپ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اس لیے ماں بچے کی پرورش میں باپ سے زیادہ نمایاں حصہ لیتی ہے۔ لیکن باپ کا کردار بھی بچے کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتا ہے۔ دراصل خاندان کے سب افراد ایک دوسرے کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ساڑھے تین سال کی عمر میں وہ دوسرے ہم عمر بچوں سے دوستانہ تعلق پیدا کرتا ہے۔ عام طور پر لڑکے لڑکوں کو دوست بناتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس عمر کی لڑکیاں بھی لڑکیوں ہی سے دوستی رکھنا پسند کریں۔ اس عمر میں بچے اب اپنے آپ کو اپنی دنیا کا مرکز نہیں سمجھتے بلکہ دوسرے بچوں کا حق پہچاننے لگتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک وہ بڑے گروہ میں نہیں کھیل سکتے۔ کیونکہ اس عمر کا بچہ من مانی کرنا چاہتا ہے جسے دوسرے بچے قبول نہیں کرتے۔ اس طرح بچہ سمجھ جاتا ہے کہ دوسرے بچے محض اس کے لیے نہیں ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی یکتائی کو قبول کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سکول جانے تک بچہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ ایک فرد ہے اور دوسرے بچے بھی افراد ہیں۔ سکول جانے سے دوسال قبل بچے کے الفاظ کا خزانہ تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔ زبان دنیا کو سمجھنے اور اس کا لین دین کرنے کا آلہ ہے۔ الفاظ کے محض جذباتی مفہوم سے نکل کر بچہ اب لغوی معنوں کو سمجھنے لگتا ہے۔ الفاظ کے استعمال سے اس کا تخیل پروان چڑھتا ہے اور وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے تجربات کو استعمال کرتاہے۔ بچے میں صحت مندانہ ذہنیت پیدا کرنے کے لیے مندرجہ ذیل دو باتیں ضروری ہیں: ۱۔ ایک ایسی فضا جہاں بچے کو یہ احساس ہو کہ وہ مقبول ہے، اس کی قدر ہے اور اس سے محبت کی جاتی ہے۔ ۲۔ ایک ایسی فضا جہاں چھان بین کرنے اور غلطیاں کر کے سیکھنے کے مواقع حاصل ہوں اور جہاں خطائیں اور غلطیاں ہو جانے کے بعد بھی ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے محبت اور تحفظ کا احساس ہو۔ ایسی فضا میں بچہ اپنی زندگی اطمینان اور خوشی کے ساتھ گزار سکے گا۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Nyc Sharing
t4s
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks