SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی

      شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی
      خالد محمود
      مولانا الطاف حسین حالی اردو کی ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت کا نام ہے۔ انھیں اردو تنقید کا باوا آدم کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ انھوں نے اردو میں سوانح نگاری کا آغاز ہی نہیں کیا بلکہ آج تک وہ اردو کے اہم ترین سوانح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اردو میں جن شاعروں کو نظمِ جدید کا موجد کہا جاتا ہے۔ ان میں نمایاں اور ممتاز نام حالی کا بھی ہے۔ وہ فارسی کے عالم تھے اور عربی زبان سے بخوبی واقف تھے۔ اردو کی کشتی کے کھیون ہار تھے۔ انھوں نے اصلاح پسند طبیعت پائی تھی۔اس لیے اگر سرسید تحریک نے انھیں اپنے دامن میں لے لیا تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ادب کی دنیا میں حالی کا سب سے بڑا ایثار یہ ہے کہ وہ اعلیٰ پائے کے غزل گو منصب سے دستبردار ہو کو مدوجزرِاسلام۔۔ مناجات بیوہ۔۔ اور چپ کی داد۔۔ جیسی نظمیں لکھ کر اصلاحِ معاشرہ کے خشک میدان میں اتر آئے۔ مکتوب نگاری ان کے کلام کی ایک اور جولان گاہ ہے۔ان کے مطابق میری ولادت تقریباً 1253ھ مطابق 1837ء میں ہوئی۔حالی کے چار بہن بھائی تھے۔ ان کے علاوہ ایک بڑے بھائی خواجہ امداد حسین، دو بہنیں امتی الحسین اور وجیہ النسا۔حالی نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں خود نوشت مختصر سوانح حالی کی کہانی خود ان کی زبانی میں لکھا ہے کہ انھیں قرآن شریف حفظ کرایا گیا، پھر پانی پت ہی میں ممنون دہلوی کے بھتیجے اور نیز داماد بھی تھے اور بوجوہ پانی پت میں مقیم تھے اور بقول حالی، فارسی لٹریچر، تاریخ اور طب میں یدِ طولٰی رکھتے تھے۔ حالی نے ان سے فارسی کی دو چار کتابیں پڑھیں، ان کی صحبت میں رہ کر حالی کو فارسی ادب سے خاص لگاؤ پیدا ہو گیا پھر حالی کو عربی کا شوق ہوا۔ ان ہی دنوں مولوی حاجی ابراہیم انصاری سے حالی نے صرف و نحو پڑھی۔حالی کی عمر سترہ سال کی تھی جب بھائی بہنوں نے چاہا کہ ان کی شادی کر دیں۔ حالی چوں کہ بہن بھائی کو والدین کی طرح سمجھتے تھے اس لیے انکار نہیں کر سکے۔ اس لیے حالی کے ماموں میر باقر علی کی صاحبزادی اسلام النسا سے ان کی شادی کر دی گئی۔حالی کے بڑے بھائی امداد حسین ایک دفتر میں ملازم تھے۔ ان ہی کی تنخواہ پر سارے گھر کا گزارہ تھا۔ اتنے بڑے گھر کے لیے یہ تنخواہ کافی نہیں تھی اس لیے گھر کے لوگوں کی خواہش تھی کہ حالی بھی ملازمت کر لیں۔ لیکن بقول حالی:اب بظاہر تعلیم کے دروازے چاروں طرف سے مسدود ہو گئے۔ سب کی خواہش تھی کہ میں نوکری تلاش کروں مگر تعلیم کا شوق غالب تھا اور بیوی کا میکہ آسودہ حال۔ میں گھر والوں سے روپوش ہو کر دلی چلا گیا۔ اور قریب ڈیڑھ برس کے وہاں رہ کر کچھ صرف و نحو اور کچھ ابتدائی کتابیں منطق کی مولوی نوازش علی مرحوم سے جو وہاں ایک مشہور واعظ اور مدرس تھے ، پڑھیں۔ دلی میں حالی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے کہ بقول ان کے:میں نے دلی میں شرح سلم، ملا حسن اور بیندی پڑھنی شروع کی تھی کہ سب عزیزوں اور بزرگوں کے جبر سے چار و ناچار مجھ کو دلی چھوڑنا اور پانی پت آنا پڑا۔ یہ ذکر 1855ء کا ہے۔ دلی سے آ کر برس ڈیڑھ تک پانی پت سے کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہاں بطور خود اکثر بے پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا۔ حالی پانی پت میں آ کر کتابوں کے مطالعے میں مصروف ہو گئے۔ گھر والوں کا اصرار تھا کہ وہ ملازمت کریں۔ بالآخر 1856ء میں حصار میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں انھیں بہت کم تنخواہ پر ملازمت ملی۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ 1857ء کا ناکام انقلاب ہو گیا۔ اور حالی ملازمت چھوڑ کر پانی پت کے لیے روانہ ہو گئے۔راستے میں حالی کو بے شمار صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔حالی کے چھ بچے ہوئے ان میں چار لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے دو لڑکے ایک لڑکی بچپن ہی میں وفات پا گئے۔ ایک لڑکا چند مہینے زندہ رہا کر خدا کو پیارا ہو گیا۔ دوسرا لڑکا سات آٹھ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گیا۔ اس لڑکے کا نام اعتقاد حسین تھا۔ ایک لڑکی رقیہ بیگم کا دس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ جو بچے حیات رہے، ان میں دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔حالی کو حصار سے ملازمت ترک کر کے پانی پت آئے ہوئے چار سال کی مدت ہو چکی تھی۔ انھوں نے پانی پت میں ملازمت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ، لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔1857ء کے ہنگامے کے بعد پانی پت سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا تھا اس لیے حالی کا قیام پانی پت ہی میں رہا۔ حالی نے چار سال ضائع کرنے کے بجائے کتابوں کے مطالعے میں وقت گزارا۔ بقول حالی:اس عرصے میں پانی پت کے مشہور فضلا مولوی عبدالرحمٰن ، مولوی محب اللہ اور مولوی قلندر علی مرحومان سے بغیر کسی ترتیب اور نظام کے کبھی منطق یا فلسفہ کبھی احادیث کبھی تفسیر پڑھتا رہا اور کبھی جب ان صاحبوں میں سے کوئی پانی پت میں نہ ہوتا تھا تو میں خود بغیر پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ اور خاص کر علم و ادب کی کتابیں شرحوں اور لغات کی مدد سے اکثر دیکھا کرتا تھا اور کبھی کبھی عربی نظم و نثر بغیر کسی اصلاح یا مشورے کے لکھتا تھا مگر اس پر اطمینان نہ ہوتا تھا۔حالی کو دلی میں تلاش روزگار میں سرگرداں رہتے ہوئے تقریباً دو سال کی مدت گزر چکی تھی کہ ایک دن جہانگیر آباد کے نواب مصطفٰی شیفتہ نے انھیں اپنی مصاحبت کی پیش کش کی جسے حالی نے منظور کر لیا اس طرح حالی کی ملازمت کا مسئلہ حل ہو گیا۔حالی، شیفتہ کی مصاحبت میں بہت آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے کہ شیفتہ کا انتقال ہو گیا اور حالی بے روزگار ہو گئے۔ اس کے بعد لاہور میں گورنمنٹ بک ڈپو تھی جس کا نام پنجاب بک ڈپو تھا اس میں ایک اسامی خالی تھی۔ حالی نے اس اسامی کے لیے درخواست دی،انھیں ملازمت مل گئی۔لاہور میں چار سال رہنے کے باوجود ، حالی کا اس شہر میں دل نہیں لگا۔ اس کی غالباً بڑی وجہ یہ تھی کہ لاہور کا سماجی ماحول دلی کے ماحول سے بہت مختلف تھا۔ حسن اتفاق سے دہلی کے اینگلو عربک سکول میں عربی کے مدرس کی اسامی خالی ہوئی حالی نے اس اسامی کے لیے درخواست دی اور عربی کے مدرس اول کی حیثیت سے ان کا تقرر ہو گیا۔ چوں کہ حالی کو یہ سکول اور کام دونوں پسند تھے، اس لیے انھوں نے بڑی محنت اور توجہ سے طلبا کو عربی پڑھائی۔حالی 1887ء میں اینگلو عربک سکول دہلی میں مدرس تھے۔ حیدرآباد کے نواب سر آسمان جاہ بہادر نظام حیدرآباد کی سرکار میں مدارِ الہام تھے۔ وہ شملے جاتے ہوئے علی گڑھ آئے اور سرسید احمد خاں کی کوٹھی پر مقیم ہوئے۔ اس وقت حالی بھی علی گڑھ ہی میں تھے۔ سر آسمان جاہ بہادر حالی اور ان کے ادبی کارناموں سے واقف تھے جب حالی سے ملاقات ہوئی تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے حالی کا 75 روپے ماہوار کا وظیفہ امدادِ مصنفین کے صیغے سے مقرر کر دیا۔ اگرچہ حالی کا وطنِ اصل پانی پت تھا۔ پیدائش کے وقت ہی اس شہر سے ان کا سیکڑوں سال کا ذہنی رشتہ تھا ، لیکن پانی پت کے مقابلے میں انھیں دلی سے زیادہ محبت تھی اور ذہنی لگاؤ تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ دلی علم و فن اور شعر و ادب کا گہوارہ تھا۔ حالی نے 1857ء سے پہلے کے اس دلی شہر کو دیکھا تھا جو اگرچہ برباد ہو چکا تھا لیکن انجمن آرائی اور بعض دوسری وجوہ سے اب بھی عالم میں انتخاب شہر تھا۔حالی نے اس دلی کو دیکھا جسے آسمانِ ادب کے چاند ستاروں نے منور کر رکھا تھا اس شہر میں اْس عہد کی ممتاز ترین ادبی شخصیتوں سے حالی کو قربت حاصل رہی تھی۔ حالی کو ان لوگوں کی یاد زندگی بھر تڑپاتی رہی۔حالات سے مجبور ہو کر جب حالی کو دلی چھوڑنا پڑی تو انھیں بہت سخت تکلیف ہوئی۔ 31 دسمبر 1914ء اور پہلی جنوری 1915ء کی درمیانی رات کو دو بجے دنیائے ادب کو روشن کرنے والا خورشیدِ عالم تاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔یکم جنوری کو دن کے دو بجے حالی کو پانی پت میں حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر کی درگاہ میں مدفون کر دیا گیا۔





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following 2 Users Say Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (01-03-2018),Ubaid (01-02-2018)

    3. #2
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی


      Nyc Sharing

      t4s


      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    4. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (01-04-2018)

    5. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی

      رائے کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •