Bht khoob
میری سب سے پرانی سیاسی یاداشت سن 77ء کا الیکشن ہے- ایک دھندلی سی یاداشت
میں گاؤں کے اڈّے پر حافظ کی دکان کے سامنے گجگ کھا رہا تھا- وہاں ایک وین کھڑی تھی جس پر نو ستاروں والا اشتہار لگا تھا- وین پر نصب اسپیکر پر نعت لگی تھیمدینے کو جائیں
یہ جی چاھتا ہے
نصیب آزمائیں
یہ جی چاھتا ہےشاید “مدینہ” اس زمانے میں پارلیمنٹ کو کہتے تھےاسی طرح ایک بار ہم لاوہ شریف جانے کو “ضلع سرگودھا” کے بس اڈّے پر کھڑے تھے- میں بابا کی انگلی پکڑے ہوئے تھا- ہمارے پاس سے ایک وین گزری جس میں اسپیکر بج رہا تھاہل چلے گا ، ہل چلے گا
گنجے کے سر پر ہل چلے گااس دور کے “گنجے” جناب ذولفقار علی بھٹّو صاحب تھے- میاں صاحب تو اس وقت شاید پولیس میں کانسٹیبل ہونگے اور ان کے بال و پر بھی سلامت ہونگےاسی دوران ایک اور ویگن گزری- اس پر ترنگے لہرا رہے تھے- ان کا لاؤڈ اسپیکر کہ رہا تھاعیداں تے بقر عیداں آئیاں
مُلاّں ڈِڈھ ودھائے
کوٹھے تے چڑھ تکّن حلوہ
کیہڑے پاسوں آئےاڈّے پر لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگے- بابا جی بھی زور سے ہنسے اور میں سوچنے لگا کہ حلوہ کھانے میں بھلا کیا قباحت ہے- ہمارے گھر بھی تو پکتا ہے- عیدین ، شبرات ، گیارہویں پر ، فوتگی پر اور عرس پرمجھے یاد نہیں اس الیکشن کا کیا نتیجہ نکلا تھا- نہ ہی مجھے شعور تھا کہ الیکشن کسے کہتے ہیں- ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس شب بی بی سی سنتے ہوئے بابا جی نے بتایا کہ الیکشن کے ھنگاموں میں سیکڑوں افراد قتل ہو گئے ہیںبھٹّو صاحب کی پھانسی کے وقت میرا شعور کس قدر پختہ ہو چکا تھا- لوگ بتا رہے تھے کہ بھٹّو کو اس لیے تختہ دار پر چڑھایا گیا کہ وہ عوام سے محبّت کرتا تھا اور امیروں سے نفرت- میں کئ روز اداس رہا تھا- گاؤں میں کبھی کبھار آنے والے “مجید منیاری” سے میں نے 1 روپے کا پورٹریٹ خریدا اور گھر میں لا کر ٹانک دیا- بھٹو صاحب کا پورٹریٹاگلے 11 سال تک میں جیالا بنا رہا- ضیاء دور میں ریڈیو ٹی وی پر بھٹو صاحب یا پیپلز پارٹی کا نام تک لینا ممنوع تھا- بابا کہتے تھے ضیاء الحق نے کھاد اور نہری پانی مہنگا کر دیا- جب کہ میں ضیاء سے اس لیے نفرت کرتا تھا کہ اس نے بھٹو کو قتل کیا تھاایم آر ڈی تحریک کے وقت میں چھٹّی جماعت کا طالب علم تھا- سیاستدانوں اور کارکنوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے- پھر یہ کوڑوں والی تصاویر جنگ کے صفحہ اول پر شائع کی جاتیں-ایم آر ڈی تحریک کے وقت میں چھٹّی جماعت کا طالب علم تھا- سیاستدانوں اور کارکنوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے- پھر یہ کوڑوں والی تصاویر جنگ کے صفحہ اول پر شائع کی جاتیں- ایک روز تھانے کے سامنے زور سے نعرہ لگایا “ایم آر ڈی زندہ باد” پھر بستہ وہیں چھوڑ کر بھاگ آیا- بستہ تو نہ ملا مگر جمہوریت کے حق میں میرا پہلا احتجاج تاریخ میں کہیں نہ کہیں ریکارڈ ضرور ہو گیانجانے کون سا سال تھا ، جنگ اخبار میں ایک کلین شیو نوجوان کو “اشاعتِ خصوصی” سے نوازا گیا ، جو سر سے قدرے گنجا تھا- موصوف شاید وزیراعلی بنائے گئے تھے- میرا دل اس شخص کےلئے نفرت سے بھر گیا- یہ شخص نواز شریف تھاایک روز میں نانا جی کے ڈیرے پر غلیل سے چڑیاں تاک رہا تھا کہ اچانک ریڈیو کی نشریات روک کر اعلان کیا گیا
ہمیں افسوس سے اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ صدر مملکت جنرل ضیاء الحق آج بہالپور کے قریب ایک فضائ حادثے میں اپنے رفقاء سمیت شہید
میں نے غلیل پھینک کر دوڑ لگا دی- اس غلام کی طرح جس کا آقا اچانک مر گیا ہو اور اب وہ آزاد ہو- کھیتوں میں بھاگتا ، کھالے پھلانگتا ، ہانپتا کانپاتا میں اپنے ڈیرے پر پہنچا اور دور سے ہی چولھے پر بیٹھی مائ کو سد ماریامّاں …… اماّں …. ضیاء مر گیا … ضیاء الحق مر گیاجیسے میں نے غُلیل سے مارا ہو
میں پٹواری کیسے بنا ، اس کا تذکرہ پھر کبھی
بشکریہ …. ظفر اقبال محمّد
https://www.facebook.com/photo.php?f...2449253&type=3
Bht khoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks