نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قائداعظمؒ کی والہانہ عقیدت
شاہد رشیدبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ سچے اور پکے مسلمان تھے۔ محبوب کائنات حضرت محمد ؐسے ان کی محبت وعقیدت اظہرمن الشمس ہے۔ آپؒ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور سندھ مدرسۃ الاسلام اور انجمن اسلام جیسے اسلامی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے آپؒ نے دوسرے تمام قانونی اداروں کو چھوڑ کر لنکنز اِنمیں صرف اور صرف اس لیے داخلہ لیا کہ مقنن اعظم حضور نبی کریمؐ کا اسم گرامی اس کے صدر دروازے پر سرفہرست کندہ تھا۔ قائد اعظم ؒ نہ صرف محافل میلاد النبی ؐ میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت فرماتے بلکہ محبت وعقیدت میں ڈوب کربار گاہ رسالت مآبؐ میں اپنی عقیدت کے پھول بھی نچھاور کرتے تھے۔ 25جنوری1948ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عید میلاد النبی ؐ کی تقریب سعید پر کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاآج ہم یہاں اس عظیم شخصیت کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراجِ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔رسول اکرم ؐ ایک عظیم رہبر تھے۔ آپؐ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ ؐ ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ ؐ ایک عظیم فرمانروا تھے ۔ قائداعظمؒ نے مزیدفرمایا اس زمانے کے مطابق رسولؐ اللہ کی زندگی سادہ تھی۔ تاجر کی حیثیت سے لے کر فرمانروا کی حیثیت تک آپ ؐ نے جس چیز میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ ؐ کے قدم چومے۔ رسول اکرم ؐ عظیم ترین انسان تھے جن کا چشمِ عالم نے کبھی آپ ؐ سے پہلے نظارہ نہیں کیا۔ تیرہ سو سال گزرے کہ آپؐ نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔ قائداعظمؒ کے ذاتی ذخیرۂ کتب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ قانون ، نفسیات ، تہذیب وتمدن کے علاوہ آپ کے ذخیرہ کتب میں قرآن حکیم کے تراجم، کتب تاریخ اور سیرت رسول مقبول ؐ پر بھی متعدد قابل ذکر کتابیں موجود تھیں۔ ان میںسے بعض کتب پر قائداعظم ؒنے دوران مطالعہ حواشی بھی تحریر کئے اور بیشتر مقامات پر سطور کو نشان زدہ بھی کیا ہے۔قائداعظمؒ نے تاریخ اسلام اور سیرت رسول مقبولؐ کا انتہائی انہماک کے ساتھ تجزیاتی مطالعہ کیا تھا۔ قائداعظمؒ کو جب اور جہاں موقع ملتا ،وہ اسلام کی حقانیت اور تعلیمات نبوی ؐ کو بڑے سلیس اور سادہ الفاظ میںبیان کرتے تھے۔قائداعظمؒ ہمیشہ رسولؐ اللہ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے ۔ آپ ؒنے اپنی اکثر زندگی انگلستان میں گزاری جہاںہر قسم کی آلائشیں موجود تھیں لیکن ایک سچے مسلمان کی طرح رہے آپؒ کبھی جھوٹ ، فریب یا منکرات میں نہ پڑے۔ آپؒ کی راست بازی اور دیانتداری کو آپ ؒکے بدترین دشمنوں نے بھی تسلیم کیا ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 5فروری 1945ء کو مدیر مسلم ویوز بمبئی کے نام عید میلاد النبی ؐ کی مبارک تقریب پر اپنے پیغام میں فرمایا میں آج آپ کو اس کے سوا کیا پیغام دے سکتا ہوں کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کو اسلام کی بہترین روایات کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیے۔ وہ دین جو ہمیں رسول ؐ کی وساطت سے ملا ہے۔ رسول اکرم ؐنے اپنی حیات طیبہ کا بیشتر حصہ نظریات کی خاطرجدوجہد میں صرف کیا۔ پھر کیا یہ ہر مسلمان کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو وہ ان عظیم نظریات اور اسلام کی شاندار روایت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی بہترین کوشش صرف کر دے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی دلی تمنا تھی کہ کسی نہ کسی طرح حج کی سعادت حاصل ہو اور دیار رسول ؐ پر حاضری کی سعادت نصیب ہو۔ ایک دفعہ آپؒ نے زیارت حرمین شریفین کا عز م صمیم بھی کر لیا تھا۔ اس مبارک ارادے پر پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ نے آپ کو مبارک دیتے ہوئے یوں راہنمائی فرمائی گزشتہ ہفتے ایک پیغام عزمِ حج کی مبارکبادکا بھیج چکا ہوں ۔ اب آپ ان ہزار ہا اشغال کو چھوڑ کر اس بارگاہ الٰہی اور دربار شریف حضرت رسولؐ اللہ پر حاضر ہو کر اس کا شکریہ ادا کریں اور فقیر کے پیغام کو معمولی نہ سمجھیں۔اس خط کے جواب میں قائداعظمؒ نے تحریر کیا آپ کے خط کا بہت بہت شکریہ ، آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں تیزی کے ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کی بنا پر میرے لیے اس وقت ہندوستان سے دور ہونا ممکن نہیں ہے۔چنانچہ مسلمانان برصغیر کے پیچیدہ مسائل کے حل اور انہیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کرنے کیلئے کی جانیوالی جدوجہد کی وجہ سے آپؒ فریضہ حج ادا نہ کر سکے۔1943ء میں کسی بدبخت نے قائداعظم ؒ پر حملہ کر کے آپ کو زخمی کر دیا۔ اس پر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ نے اپنے نمائندہ بخشی صاحب کو ایک خط اور بہت سے تحائف دے کر جناحؒ صاحب کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے مزاج پرسی کر کے آئو۔ان تحائف میں قرآن مجید ، جائے نماز اور تسبیح بھی شامل تھی ۔ قائداعظمؒ نے جوابی خط میں تحریر فرمایا میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ نے قرآن شریف اس لیے عنایت فرمایا ہے کہ میں مسلمانوں کا لیڈر ہوں جب تک قرآن کریم اور دین کا علم نہ ہو کیا لیڈری (راہبری)کر سکتاہوں، میں وعدہ کرتاہوں کہ قرآن شریف پڑھوں گا۔ جائے نماز آپ نے اس لئے عطا کیا ہے کہ جب میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں مانتا تو مخلوق میرا حکم کیوںمانے گی ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں نماز پنجگانہ پڑھا کروں گا۔ تسبیح آپ نے اس لئے ارسال کی ہے کہ میں اس پر درود شریف پڑھا کروں ، جو شخص اپنے پیغمبرﷺ پر اللہ کی رحمت طلب نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ رحمت کیسے نازل کر سکتا ہے ، میں اس اشارے کی بھی تعمیل کروں گا۔ ٭٭٭
Bookmarks