بارہ ربیع الاول کی اہمیت اور مسلمانوں کی ذمہ داری
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول مبارک ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ 12 ربیع الاول شریف بروز پیر، مکہ المکرمہ کے محلے بنی ہاشم میں آپؐ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ 12 ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی 10 تاریخ کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔اسی تاریخ سے کائنات کی ظلمت و تاریکیاں نورانیت میں تبدیل ہونے لگیں۔ انسان کا مردہ دل پھر سے تازگی پانے لگا۔ کفر و شرک کی گھنگور گھٹائیں ختم ہونے لگیں۔ انسانوں کو انسانیت کے صحیح اور حقیقی مفہوم سے عملی آشنائی ہونے لگی۔ ہر قسم کی خرافات اور بے بنیاد رسم و رواج کی بندشوں میں جکڑا ہوا انسان آزاد ہو کر اپنے مقاصد زندگی، اور وجہ تخلیقات کو سمجھا۔ اپنے معبود حقیقی کو جانا، عبد و معبود کے رشتوں کو سمجھا۔
یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا عشق غیر فانی دولت بن چکا ہے، اس محبت کا اظہارشیدائیانہ کرتے رہتے ہیں اور بارہ ربیع الاول کے موقع پر مختلف طریقے سے اظہار مسرت کرتے ہیں۔ جو گوناگوں احسانات و نوازشات کا ہلکا سا شکر یہ ہے۔ہر ملک اور قوم کے لوگ اپنے رہنما، لیڈر، اور دانشوروں کا یوم پیدائش مناتے ہیں جبکہ ان شخصیتوں سے فائدہ کسی ایک ملک یا ایک قوم کو یا کسی ایک خطے کو یا کسی ایک خاص نظریات و مکتب فکر کو ہی ہوتا ہے ،مگر یوم پیدائش پر خراج عقیدت ضرور پیش کرتے ہیں۔یہاں اس ذات گرامی کے یوم پیدائش کی بات اور خراج عقیدت پیش کرنے کا معاملہ ہے۔ جو ہر انسان، جانور، پرندے، چوپائے، پیڑ پودے اور ہر چیز کے نبی ہیں۔ سب کا وجود ان کے طفیل ہے، سب کو ان سے برابر کا فائدہ ہے، وہ تمام انسانوں کے نبی، کائنات کی تمام اشیاء کے لئے رحمت ہی رحمت۔ ان کو سب سے پیار ہے۔ انہوں نے جو بتایا سب کے لئے، جو کیا سب کے لئے، جو ان کی باتوں کو مانا، ان کی باتوں پر چلا، ان کے طریقوں کو اپنایا، اس کے وارے نیارے ہو گئے، دنیا کی ہر بھلائی مل گئی اور آخرت کی سرخروئی بھی مل گئی، اللہ کی خوشنودی بھی مل گئی۔ پھر ایسے عظیم محسن، ایسے پیارے نبی، جن سے بڑھ کر اللہ کے سوا کوئی نہیں، کوئی شخصیت کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، مگر سرکار دو جہاں سے اس کی نسبت ذرے اور آفتاب جیسی ہے۔ کسی ذرے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،مگر آفتاب کی برتری کا عالم کچھ اور ہے، مگر محمدرسول اللہ کی عظمت کے آگے آفتاب بھی ایک ذرہ ہے آفتاب اپنی شعاعوں سے بیک وقت زمین کا نصف حصے کو روشن کرتا ہے، مگر نبی کریم کی ضوفشانی،ان کے علم و حکمت، نبوت و رسالت کی روشنی زمین ہی نہیں، ہر عالم کے ایک ایک ذرے پر پڑ رہی ہے۔
12 ربیع الاول کی تاریخ، انسانی تاریخ کا عظیم ترین دن ہے، اس دن کو شایان شان طریقے سے خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی برادری اور انسانیت کو دنیا و آخرت کی بھلائی کے حسین طور طریقوں کو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کے آئینے میں اخذ کرنے پر گزرانا چاہئے۔ ہر جشن مسرت، ہر جلسہ میلاد بامقصد اور موثر ہونا چاہئے۔ تمام مسلمانوں کو اس دن کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے گذشتہ کا احتساب اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرکے فلاح وا صلاح انسانیت کے لئے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ مشغول ہو جانا چاہئے، اس تاریخ کے تمام جلسوں، میلادوں اور اجتماعات میں سرکار دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عائلی زندگی کے تابناک گوشوں کو اجاگر کرکے اور بیان کرکے عوام الناس کو بامقصد عملی زندگی کت آغاز کا سبق دینا چاہئے۔ سرکار دو جہاں کی رحم دلی، امن طلبی، احترام انسانیت، حقوق اللہ و حقوق العباد، تبلیغ اسلام، سماجی بائیکاٹ، ترک وطن و ہجرت، کافروں، مشرکوں کے ظلم و ستم، عناد و دشمنی طرح طرح کی اذیت و فتنہ فسادات جو وہ حضور اور صحابہ کے ساتھ کرتے تھے۔
حضوراکرمؐ کی رواداری، مساوات، عورتوں کے حقوق و احترام، بچوں کی تعلیم و تربیت و ذہنی تعمیر، حق کی پاسداری، برائیوں کی بیخ کنی کے حسین طریقے، بھائی چارگی، پڑوسیوں کے حقوق، وغیرہ پر روشنی ڈالنا، انہیں بیان کرنا بہت ضرروی ہے ،تاکہ آج کے بھٹکے ہوئے انسانوں کو تباہ ہوتے سماج و معاشرے کو سدھارنے کے لئے سچا جذبہ میسر آ سکے اور عظمت محمدیہ بھی اجاگر ہو اور دیگر اقوام پر بھی اچھے اثرات مرتب ہو سکیں۔ فلسفہ و حکمت اور باریکیوں کو عام اجتماعات و اجلاس میں بیان کرنے سے اپنی قابلیت، صلاحیت کی دھاک بٹھائی جا سکتی ہے۔ہر مسلمان خواص سے عوام تک کی ذمہ داری اور عقیدت و محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو رسول پاک ؐکی سنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم مصمم کر لیں اور ہر منزل پر، ہر موقعہ پر ان سنتوں کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئیں، دل، زبان اور عمل اور میں یکسانیت پیدا کریں، ریاکاری و نام و نمود سے بچیں، خلوص و للہیت کو اپنائیں، ایثار و قربانی پر کمربستہ رہیں، صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
اپنی صورت و شکل ،وضع قطع کو اسلامی تہذیب کا آئینہ بنائیں۔ ہاتھ، پاؤں اور زبان سے کسی کو اذیت نہ دیں۔ کسی بھی غریب ناچار مجبور کی مقدور بھر مدد کریں۔ مظلوم کی حمایت، حق کی پاسداری کریں، علمائے کرام، حفاظ، مساجد کے اماموں کی عزت و احترام کریں۔ تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور حصہ لیں۔ اچھی اور نیک باتیں بلا جھجک ،مگر شفقت و احترام کے ساتھ دوسروں کو بتائیں۔ اختلاف و انتشار سے بچنے اور بچانے کی پوری کوشش کریں۔ دینی اسلامی کتابوں کا مسلسل مطالعہ کرکے علم میں اضافہ کریں۔ بے حیائی، بے پردگی، اور عریانیت سے احتراز لازم رکھیں۔ اولاد کو دینی تعلیم دیں۔ جہاں کہیں رہیں، جس مجلس میں رہیں، جس سوسائٹی میں رہیں، ایک سچے مسلمان بن کر رہیں اور اسلامی تعلیمات اور آداب و اخلاق کی عملی و زبانی تبلیغ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ حضور اکرمؐ کی مکی زندگی و مدنی زندگی اگر سامنے رہے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اللہ تعالٰی ہر عیدمیلادالنبی کے موقعہ پر تمام مسلمانوں کو نیا عزم نیا حوصلہ اور عملی جذبہ عطا فرما کر سنت رسول پاک کا آئینہ بنائے آمین۔ ثم آمین
Bookmarks