اُتروڑ اور گبرال: دل فریب اور سحرانگیز


فضل ربی راہی
وادیٔ اتروڑ اور گبرال جنت نظیر سوات کی تمام وادیوں میں سب سے زیادہ خوب صورت، دل فریب اور سحر انگیز وادیاں ہیں۔ کالام خاص سے جیپ، پرائیویٹ یا ذاتی گاڑی کے ذریعے اتروڑ اور گبرال پہنچنا ممکن ہے۔ کالام سے اتروڑ اور گبرال تک بس کی سروس بھی موجود ہے۔ منگورہ سے کالام تک سارے راستے میں سوات کی فطری خوب صورتی اور رعنائی بِکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ منگورہ کے فضا گٹ پارک سے دریائے سوات کے کنارے اس کی مخالف سمت سفر کرتے ہوئے چارباغ، فتح پور، شین، خوازہ خیلہ، باغ ڈھیری، مدین، بحرین اور کالام کی جاں فزا وادیوں سے گزرتے ہوئے اتروڑ، گبرال، شاہی باغ، لوئے پنڈال، کالام بانڈہ، دیسان، بَٹل اور گل آباد کی مہکتی ہوئی طلسماتی خوب صورتی کی حامل وادیوں میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ کالام میں بنڑ(جنگل) کے مقام پر سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک سڑک مشرق کی طرف سیدھی اوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ تک چلی گئی ہے جب کہ دوسری سڑک بائیں طرف شمالاً اتروڑ اور گبرال کی معطر خیز وادیوں کی جانب مڑ گئی ہے۔ کالام سے اتروڑ تک کا فاصلہ 12 کلومیٹر ہے جب کہ گبرال تک 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچا جا سکتا ہے۔ اتروڑ کی وادی سطح سمندر سے 7300 فٹ بلند ہے اور گبرال سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ وادی اتروڑ فطری مناظر اور معطر آب و ہوا کے لحاظ سے ایک نہایت خوب صورت اور دل نشیں وادی ہے جس کے چاروں جانب بلند و بالا برف پوش پہاڑ گھنے جنگلات کی قیمتی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس کے بیچ میں ایک طرف گبرال سے اچھلتا کودتا اور شور مچاتا ہوا دریائے گبرال بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتا ہوا چلا آرہا ہے جب کہ دوسری جانب کنڈلوڈنڈ اور سپین خوڑ ڈنڈ سے نکلی ہوئی ندی بلندی سے نشیب کی طرف نہایت بے قراری کے ساتھ بہتی ہوئی اتروڑ گاؤں کے قریب دریائے گبرال کے ساتھ مل جاتی ہے جس سے دریائے گبرال کی تندی اور تیزی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ راستے میں اس کے ساتھ کئی ندی اور نالے بھی ملتے چلے جاتے ہیں۔ کالام پہنچ کر دریائے گبرال مہوڈنڈ سے نکلے ہوئے دریا کے ساتھ مدغم ہو جاتا ہے جو دریائے سوات کے نام سے پوری وادی سوات کو سیراب کر کے اس کی شادابی اور رعنائی کا بڑا باعث بنتا ہے۔ دریائے گبرال میں ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے جو اپنی مخصوص لذت اور بے مثال ذائقہ کے لئے غیر معمولی شہرت رکھتی ہے۔ محکمہ ماہی پروری کے متعلقہ اہلکاروں سے اجازت لے کر یہاں اس کا باقاعدہ شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہت عرصہ قبل اتروڑ کی وادی کوبھی گبرال کے نام سے پکارا جاتا تھا اور یہ علاقہ اتروڑ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی گبرال کاعلاقہ سمجھا جاتا تھا۔ بعدازاں اسے اتروڑ کے الگ نام سے پکارا جانے لگا۔ اتروڑ سے گبرال جاتے ہوئے راستے میں قدرتی مناظر اس قدر لازوال حسن و جمال کے حامل ہیں کہ انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی طلسماتی سرزمین میں گھوم رہا ہو۔ ہر طرف گھنے جنگلات کے طویل سلسلے نظر آتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سورج کی روشنی میں چمکتی ہوئی برف قو س و قزح کے حسین رنگوں کا خوب صورت امتزاج پیش کرتی ہے۔ جگہ جگہ گیلیوں کے ڈھیر اور ان سے اٹھنے والی مخصوص مہک انسان پر وجد آفریں کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب واقع سر سبز و شاداب کھیت اور اِن میں کھِلے ہوئے گل رنگ اور خوش رنگ پھول آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں اور دل و دماغ کو فرحت و سرشاری سے لبریز کر دیتے ہیں۔ گبرال پہنچ کر وادی قدرے کشادہ ہو جاتی ہے اور اس کے مناظر اور بھی سرور افزا اور فرحت بخش محسوس ہونے لگتے ہیں۔ گبرال کی وادی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ کوز گبرال(نشیبی گبرال )اور بر گبرال (بالائی گبرال) بَر گبرال کو باڑہ بھی کہا جاتا ہے۔اس کے قرب و جوار میں بہت سے دِل کش اور معطر مقامات ہیں۔ جن میں جبہ، شاہی باغ، گل آباد اور غوائی بیلہ کافی مشہور ہیں۔ ان میں بعض مقامات تک کچی سڑک چلی گئی ہے اور بعض مقامات تک پیدل راستوں کے ذریعے پہنچنا ممکن ہے۔ غوائی بیلہ میں وسیع و عریض حسین دشت ہیں جن کو دیکھ کر انسان قدرت کی بہترین صناعی پر ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اتروڑ میں ایک تاریخی دو منزلہ مسجد ہے جس کی دوسری منزل کی تعمیر میں دیودار اور اخروٹ کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ یہ مسجد جدید طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی تعمیر اور اس میں دل کش گُل کاری و کندہ کاری کے لئے برادر ملک افغانستان سے ماہرین بلوا گئے تھے جنہوں نے اپنے فن اور مقامی فنِ تعمیر کی آمیزش سے طرزِ تعمیر کا ایک نہایت خوب صورت فن تخلیق کیا ہے۔ یہ مسجد خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وادی اتروڑ کی خوب صورتی، دل فریبی اور سحر انگیزی سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیاحوں کو اتروڑ میں دو تین دن تک رہائش رکھنی چاہئے۔ گبرال وادی، شاہی باغ، جبہ جھیل، گل آباد(آبشار)، لدو بانڈہ (جھیل)، لوئے پنڈغال، کالام بانڈہ، اِزمِس جھیل، دیسان (چراگاہ)، کنڈلو ڈنڈ (جھیل)، خاپیرو ڈنڈ (پریوں کی جھیل)، سپین خوڑ ڈنڈ (سفید ندی والی جھیل) وغیرہ کو جیپ، گھوڑ سواری اور ٹریکنگ (پیدل چلنے) کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جامرہ (اتروڑ و گبرال کے درمیان) کے مقام سے باڈ گوئی پاس سے ہوتے ہوئے دیر اور چترال جایا جا سکتا ہے۔ یہ سارا علاقہ خوب صورت مناظر اور دل کش سبزہ زاروں سے اَٹا ہوا ہے۔ یہ تمام مقامات ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے لئے نہایت موزوں ہیں۔ یہاں کا مشہور پہاڑ دیسان ہے جو اتروڑ میں واقع ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر وسیع سرسبز و شاداب چراگاہیں اور دشت پھیلے ہوئے ہیں جن میں گن گناتے آبشار اور مدھ بھرے جھرنے ہیں۔ اتروڑ، دیسان اور گبرال میں وسیع و عریض جنگلات ہیں جن کی رائلٹی اتروڑ اور گبرال کے باشندوں کو ہر سال ملتی ہے اور اس پر یہاں کے مکینوں کا گزارہ چلتا ہے۔اِن جنگلات میں دیار، فر،برج اور جیح نامی درخت پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے گھنے جنگلات میں ریچھ، جنگلی مرغ،اعلیٰ نسل کے چکور، ہرن اور طاؤس پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ عام طور پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہاں کا آلو، گوبھی،شلجم اور مٹر بہت مشہور ہیں۔ ٭٭٭