آج کیا پکایا اور لکھا جائے


ابن انشا
آج کیا لکھا جائے؟ یہ مسئلہ ایسا ہی ٹیڑھا اور دشوار ہے جیسا یہ کہ آج کیا پکایا جائے۔ ہم نے اپنے دوستوں کے گھروں میں اس بات پر فساد ہوتے دیکھے ہیں۔ ہوتایہ ہے کہ میاں سے بیوی صبح ضرور پوچھتی ہیں کہ ’’سبزی والا کھڑا ہے، آج کیا پکایا جائے۔‘‘ ’’جو جی چاہے لے لو۔‘‘وہ نہایت استغنا سے جواب دیتے ہیں۔ لیکن جب دوپہر کو میاں کے سامنے کھانا آتا ہے جھلا اٹھتے ہیں۔ ‘‘روز بینگن روز بینگن۔ مجھے کیا سمجھا ہے تم نے؟‘‘ ’’آلو لے لوں پھر۔‘‘ ’’قبض کرتا ہے۔‘‘ ’’گوبھی۔‘‘ ’’بادی ہے۔‘‘ ’’چقندر۔‘‘ ’’میٹھے ہوتے ہیں۔‘‘ ’’کریلے‘‘ ’’کڑوے ہوتے ہیں۔‘‘ ’’شلجم‘‘ ’’میں کوئی کشمیری ہوں۔‘‘ ’’دال؟‘‘ ’’بیگم! مارے ڈالتی ہے۔ تم جانتی ہو مجھے پہلے ہی گیس کی شکایت ہے۔‘‘ ’’اچھا تو خالی گوشت پکا لیتی ہوں۔‘‘ ’’نا بابا تمہیں معلوم نہیں خالی گوشت فاسد خون پیدا کرتا ہے۔ سبزی تو کوئی ہونی ہی چاہیے۔‘‘ ’’آخر کون سی سبزی لوں۔‘‘ ’’کہہ تو دیا جو چاہے لے لو‘‘ میاں اخبار میں ضرورت رشتہ کے کالم میں منہمک ہو کر فرماتے ہیں۔ ’’تو پھر آج کیا لکھا جائے۔‘‘ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کے لیے مضمون لکھنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم بائیں باتھ سے کام کر ہی نہیں سکتے۔ دوسرے یہ کہ شمار ان باکمال لوگوں میں کرانا مقصود نہیں جن میں سے ایک سے فرمائش کی گئی کہ قطب مینار پر مضمون لکھو۔ وہ کھٹ کھٹ مینار کی سیڑھیوں پر چڑھ گیا اور اوپر سے چیخ کر پوچھنے لگا کہ کس موضوع پر لکھوں؟ بچپن میں جب ہم سے گھوڑے پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا تو ہم نے بھی اسی طرح حکم کی تعمیل کی تھی۔ لیکن خرابی یہ ہے کہ گھوڑا قطب مینار نہیں ہے۔ جانور ہے۔ ہلتا بہت ہے۔ کتنا بھی سنبھل کر بیٹھو قلم رپٹ جاتا ہے۔ ہمیں اپنے ان محترم اور بزرگ افسانہ نویس پر ہمیشہ رشک آیا جو فرماتے ہیں کہ ریڈیو کا فرمائشی پروگرام سن کر افسانہ لکھتا ہوں۔ وہ یوں کہ اس میں سے کوئی مصرع یا بول پسند آجائے تو اسے بطور عنوان ٹانک کر قلم چلانا شروع کر دیتا ہوں۔ کہیں تو جا کے رکے گا۔ سفینہ غمِ دل۔ جب دیکھتا ہوں سولہ صفحے ہوگئے اور یا تو ہیروئن کی دھوم دھام سے شادی ہو گئی یا ان میں سے ایک خودکشی کر کے حرام موت مر گیا تو افسانہ ختم کر کے تہ کر کے ایڈیٹر کو بھیج دیتا ہوں۔ انہوں نے دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیا کہ ایسا ہی کیا کریں۔ ہم نے ان کے نئے پرانے افسانوں کا ایک مجموعہ نکال کے دیکھا۔ فہرست مضمون کچھ یوں چلتی تھی۔ ا۔ اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے۔ ۲۔ میرا کوئی نہیں تیرے سوا۔ ۳۔ یہ شام کی تنہائیاں۔۔۔ ۴۔ پریتم آن ملو۔ ۵۔ لال دوپٹہ ململ کا۔ ۶۔ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ ریڈیو عام ہونے سے پہلے وہ یہی کام گرامو فون سے لیتے تھے لیکن ان کی بات اور ہے۔ وہ ہمارے طرح معمولی ادیب نہیں بلکہ مصور جذبات ہیں اور پبلشروں میں ان کی کتابوں کی اتنی مانگ رہتی ہے کہ وہ بالعموم چار کتابیں ایک ساتھ شروع کرتے ہیں۔ کمرے میں چار کونوں میں ایک ایک میز بچھی ہے اور ہر ایک پر ایک کاپی، قلم، دوات، سیاہی چوس وغیرہ دھرا ہے۔ طبیعت میں گرمی آئی تو ناول ’’فاتح دمشق‘‘ والی میز پر جا بیٹھے۔ رومان انگیز ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تو ’’بیمار محبت‘‘ والی میز پر چلے گئے۔ ایک میز پر انہوں نے ایک تحقیقی کتاب شروع کر رکھی ہے۔ اہل قرطاجنہ کا فلسفہ مابعدالطبیعات، اور ایک پر’’رہنمائے مرغی خانہ‘‘ کیونکہ موصوف ریٹائر ہونے سے پہلے سرکاری مرغی خانے کے انچارج تھے۔ یہ سارا کارخانہ بڑی خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ فقط ایک بار ذرا سی گڑ بڑ ہوئی تھی کہ ناول ’’معرکہ ہلال و صلیب‘‘ میں ایک مقام یوں آتا ہے۔ ’’صلاح الدین ایوبی نے تلوار اٹھا کر مجاہدوں سے خطاب کیا کہ بہادرو، آج زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یاد رکھو۔ جب مرغی کے چوزے ایک ہفتے کے ہو جائیں تو ان کو روزانہ کنگنی کا چوگا دینا ضروری ہے اور دن میں دوبار پانی بھی ضرور پلایا جائے۔‘‘ جب قارئین کرام کے شکایتی خط آئے تو مصور جذبات نے تحقیقات کی، معلوم ہوا قصور ان کا نہ تھا۔ کمرہ صاف کرنے والے نوکر کا تھا جس نے بے سوچے سمجھے ایک میز کی کاپی اٹھا کر دوسری پر رکھ دی تھی۔ ٭…٭…٭