SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 1 of 1

    Thread: یہاں جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      یہاں جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے

      یہاں جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے



      شاہزیب جیلانی


      ہمارا ملک بھی ایک عجیب ملک ہے۔ یہاں اکثر جو ہو رہا ہوتا ہے، وہ نظر نہیں آتا۔ اور جو نظر آ رہا ہوتا ہے، وہ ہو نہیں رہا ہوتا۔ بظاہر فوج کی مداخلت پر خدا خدا کرکے دھرنا تو ختم ہوا ، حکو مت کو پسپائی ہوئی اور آخر کو اسے ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکومت پہلے سے مفلوج تھی۔ کسی کے ڈکٹیشن پر ایک اور وزیر کی قربانی دے کر مزید کمزور ہوگئی۔
      آپریشن کی منصوبہ بندی غلط تھی ، حکومت نے میڈیا بلیک آئوٹ کرکے غلط کیا ۔ وزیر داخلہ نے بے بسی اور نا اہلی کا مظاہرہ کیا، یہ سب باتیں اہم ہیں۔لیکن کیا تین ہفتوں کے اس تماشے سے حکومت مخالف سازشی قوتوں کی کوئی تشفی ہوئی ؟ وہ حکومت کو کمزور سے کمزور ترکرنا چاہتے ہیں یا نواز شریف کے بعد ان کی حکومت کو بھی چلتا کرکے چھوڑیں گے؟
      بات ہے سن ننانوے کی جب ملک میں اسی طرح کی سیاسی محاذ آرائی عروج پر تھی۔ نواز شریف ملک کے طاقتور منتخب وزیراعظم تھے لیکن خاصے متنازعہ ہو چکے تھے ۔ آرمی چیف پرویز مشرف کے تیور بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ ملک میں غیریقینی کی فضا تھی کہ کیا ہوگا؟ ہر بار کی طرح ہمارے کچھ دانشور فوج کو اکسا رہے تھے کہ ملک کو شخصی حکمرانی سے بچانا ہے تو ایک فوج ہی ہے جو نواز شریف کا راستہ روک سکتی ہے۔
      ان دنوں میرا اپنا تجزیہ یہ تھا کہ کچھ بھی وہ دورچلے گئے جب فوج منتخب حکومتوں کا تختہ الٹتی تھی۔پاکستان ایسے کسی ایڈونچر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو پاکستان عالمی برادری میں مزید تنہا ہوگا ، معاشی چیلنجز مزیدگمبھیر ہوں گے اور امریکہ بھی اس کے حق میں نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ پھر ہوا کیا؟ ہم نے دیکھا کہ جنرل مشرف نے نہ صرف ٹیک اوور کیا بلکہ اگلے نو سال تک اقتدار پر براجمان رہے۔ یہ مٹھی بھر جنرلوں کا فیصلہ تھا جنہوں نےنہ واشنگٹن کی پرواہ کی ، نہ اپنے ملک کے آئین اور قانون کی۔
      میں نے اسی دن طے کر لیا کہ ہمارے جیسے ملک میں پیش گوئیاں کرنا حماقت ہی ہے۔ یہاں کسی بات کی کوئی منطق ہونا ضروری نہیں، یہاں نہ آئین و قانون کی کوئی اوقات نہ پارلیمان کی۔ جب کوئی بحران نہیں ہوتا ، تو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بنانے کے لئے اسکینڈل گھڑ لیئے جاتے ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے، سیاستدانوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہوں، دھرنے ہوں ، اور منتخب حکومتوں کی ساری توجہ اپنی بقا کی لڑائی پر مرکوز رہے،جمہوریت مخالف قوتوں کے لئے اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔
      گزرے وقتوں کی بات ہے کہ ملک میں سیاسی پیش گوئیوں کا سب سے زیادہ شوق سندھ کے پیر پگاڑا رکھتے تھے۔ ان کے یہاں کرنل میجر آتے جاتے تھے ۔ وہ خو د کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی کہتے تھے اور یہی ان کی اہمیت کی بڑی وجہ ہوا کرتی تھی۔ (یوں وہ ان لیڈروں سے بہتر تھے جو نعرہ تو جمہوریت اور پارلیمان کا لگاتے ہیں لیکن اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے جتن کرتے رہتے ہیں۔)
      پیر پگاڑا صاحب کا خوشامدی صحافیوں کا اپنا ایک ٹولہ ہوا کرتا تھا ، جوکنگری ہائوس اور پگاڑا ہائوس میں بیٹھ کر ان کے خواب و خیالات سے مستفید ہواکرتے تھے۔ یوں آئے دن ان کی سیاسی پیش گوئیاں اور ان کے نت نئے خواب اخبارات کی زینت بنتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ وہ روحانی شخصیت ہیں اس لئے شاید ان کے خوابوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ لیکن بعض دیگر کا خیال تھا کہ ضرور وردی والوں نے ان کے کانوں میں سرگوشیاں کی ہیں اس لئے انہیں بلکل پتہ ہوگا کہ اکھاڑ پچھاڑ کے سیاسی کھیل میں کیا ہونے جارہاہے۔
      پیر پگاڑا سندھ کی سیاست کا بڑا نام تھے اور فوجی ادوار میں کنگ میکر سمجھے جاتے تھے۔ اچھا ہوتا اُن کا یہ بھرم ایسے ہی رہ جاتا ۔ لیکن پھر سن اٹھاسی میں انہیں خود الیکشن میں کھڑے ہونے کا شوق ہوا ۔ نہ سیاسی بصیرت کام آئی نہ فوج کی حمایت اور وہ پیپلز پارٹی کے عوامی زور کے سامنےدھڑام سے گر گئے اور قومی اسمبلی کی نشست پچاس ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔
      دو سال بعد سن نوے میں پھر انتخابات ہوئے اور وہ پھر الیکشن میں کھڑے ہوگئے۔ اس بار انتخابات میں کھلی دھاندلی ہونی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتوں کو جتوانا تھا اور پیپلز پارٹی کو ہرانا تھا۔ لیکن ریاست کی تماتر طاقت کے باوجود پیر پگاڑا یہ الیکشن بھی ہار گئے۔ اس بار ووٹوں کا فرق کم ہوا لیکن پھر بھی کوئی تیس ہزار ووٹوں سے ہارے۔ اور یوں ان کا الیکشن جیتنے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ ثابت یہ ہوا کہ ریاست ضرور بہت طاقت ور ہے لیکن کبھی کبھی جمہور کے فیصلےاسے بھی تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔
      سیاستدان کہیں بھی ہوں فرشتے نہیں ہوتے۔ جن ممالک میں سیاسی عمل پروان چڑھتا ہے ، الیکشن اپنے وقت پر ہوتے ہیں، وہاں قیادت کا معیار بھی بہتر ہوتا جاتا ہے۔ لیکن جہاں بار بار جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا جاتا ہے وہاں شخصیات ہی نظام پر حاوی رہتی ہیں۔
      ان سے جان چھڑانے کے لئے فوج مائنس پلس فارمولے لے آتی ہے، سیاسی انجنیئرنگ کرتی ہے۔ لیکن آئین کے دائرے سے باہر نکل کر زور زبردستی کا کام مصنوعی ہوتا ہے ، اُس کی عوام میں جڑیں نہیں ہوتی اور وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتا۔ ایک بندوق بردار ادارے کا ملک کے سولین اداروں ، پارلیمان عدلیہ اور میڈیا ، پر یوں حاوی ہو جانا، ملک کو اندر سے کھوکھلا کرتا گیا ہے۔ اسی لئے دنیا ہمارا تمسخر اڑاتی ہے ، ہم پر اعتبار نہیں کرتی اور ہمیں دہشتگردوں اور انتہا پسند وں کا حمایتی کہا جاتا ہے۔ اگر اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اس بنیادی بگاڑ پر بات کرنی ہوگی اور اسے ٹھیک کرنا ہوگا۔



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Ubaid (12-10-2017)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •