میرا باپ میرے لیے ایک فسانہ رہا باراک اوباما کی کہانی انہی کی زبانی



میری اکیسویں سالگرہ سے چند ماہ بعد کسی اجنبی نے فون کر کے کہا کہ وہ مجھے کوئی خبر سنانا چاہتا ہے۔ اس وقت میں نیویارک میں رہتا تھا۔ سیکنڈ اور فرسٹ کے درمیان نائنٹی فورتھ میں، جو بے درخت اور ویران تھا، دونوں طرف راکھ کے رنگ کی، ایلیویٹر سے محروم عمارتیں تھیں جن کا سایہ دن کے زیادہ تر حصے میں پڑتا رہتا۔ ہمارا اپارٹمنٹ چھوٹا سا تھا۔ اس میں حرارت کا خاطر خواہ انتظام نہیں تھا۔ زینے سے نیچے لگی گھنٹی کام نہیں کرتی تھی لہٰذا مہمانوں کو نکڑ پر ایک گیس سٹیشن پہ جا کر فون کرنا پڑتا، جہاں کالے رنگ کا بھیڑیے جتنا ڈابرمین (کتا) رات کے وقت سخت پہرہ دیتا اور بیئر کی کوئی بھی خالی بوتل اپنے دانتوں میں جکڑ لیتا تھا۔ ان میں سے کسی بھی بات کا میرے ساتھ کوئی زیادہ تعلق نہیں، کیونکہ مجھے زیادہ ملنے والے نہیں آتے تھے۔ ان دنوں میں بے قرار رہتا، میں کام اور ادھورے منصوبوں میں مصروف تھا، اور دوسرے لوگوں کو غیر ضروری خیال کیا کرتا تھا۔ ایسا نہیں کہ مجھے محفل بالکل پسند نہ تھی۔ میں اڑوس پڑوس میں رہنے والے متعدد پیورٹوریکن افراد کے ساتھ ہسپانوی کھانوں کا تبادلہ بہت خوشی سے کیا کرتا تھا اور کلاسز سے واپس آتے ہوئے اکثر راستے میں رک کر لڑکوں سے گپ شپ کر لیتا تھا۔ اچھے موسم میں میں اور میرا ہم کمرہ ساتھی انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر سگریٹ پیتے اور شہر پر چھائے ہوئے کہرآلود نیلے آسمان کا جائزہ لیتے، یا پڑوس کے بہتر علاقوں میں مقیم گورے لوگوں کو کتوں کے ہمراہ اپنے بلاک سے گرزتے اور انہیں پیشاب وغیرہ کرواتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ تمہارے منہ میں گند، خبیثو! میرا ساتھی پُراثر انداز میں دھاڑتا اور ہم کتے اور اس کے مالک دونوں پر ہنستے جو سنگدلانہ اور غیر معذرت خواہانہ انداز میں آگے بڑھ جاتے۔ ایسے لمحات میں مجھے بہت لطف محسوس ہوتا، مگر بہت مختصر وقت کے لیے۔ اگر گفتگو بہک جاتی یا سرحد عبور کر کے انسیت میں داخل ہونے لگتی تو میں جلد ہی کوئی بہانہ کرکے اٹھ جاتا۔ میں اپنی محفوظ ترین تنہائی کی راحت کا عادی ہو گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ساتھ والے اپارٹمنٹ میں مقیم ایک بوڑھا بھی میرے جیسے مزاج کا تھا۔ وہ دبلا پتلا، خمیدہ کمر والا بڈھا اکیلا رہتا تھا۔ شاذونادر اپنے اپارٹمنٹ سے باہر نکلنے پر اس نے ایک بھاری کالا اوورکوٹ اور بدہیئت فیڈارا ہیٹ پہن رکھا ہوتا۔ اکثر اوقات جب وہ سٹور سے واپس آ رہا ہوتا تو میرا اس کا سامنا ہو جاتا اور میں سامان اوپر تک پہنچانے کی پیش کش کرتا، وہ میری طرف دیکھ کر کندھے اچکا دیتا۔ تب ہم زینہ چڑھنے لگتے اور ہر منزل پر پل بھر کو رکتے تاکہ وہ اپنی سانس بحال کرلے۔ آخر کار اس کے اپارٹمنٹ کے سامنے پہنچ کر میں تھیلوں کو احتیاط سے فرش پر رکھ دیتا اور وہ سر ہلا کر شکریہ ادا کرتے ہوئے اندر داخل ہوتا اور چٹخنی چڑھا لیتا۔ ہم نے آپس میں کبھی کوئی بات نہ کی اور نہ ہی کبھی اس نے میری خدمات کا شکریہ ادا کیا۔ بڈھے کی خاموشی میرے لیے متاثر کن تھی، میں نے اسے ایک پرمحبت روح خیال کیا۔ بعد ازاں میرے ہم کمرہ نے اسے تیسری منزل کی سیڑھیوں پر پڑے پایا، آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی، ٹانگیں اکڑی ہوئی اور کسی بچے کی طرح گچھا مچھا۔ لوگ جمع ہو گئے، چند ایک عورتوں نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور چھوٹے بچوں نے جذبات بھری سرگوشیاں کیں۔ انجام کار پیرامیڈیکل کارکن لاش کو اٹھانے آئے اور پولیس بڈھے کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی۔ وہ کافی صاف ستھرا مگر تقریباً خالی تھی۔۔۔ ایک کرسی، ایک ڈیسک، گھنی بھنوؤں اور مدھم مسکراہٹ والی ایک عورت کی وقت رسیدہ تصویر آتش دان پر رکھی ہوئی۔ کسی شخص نے ریفریجریٹر کھولا اور اسے میونیز و اچار کی بوتلوں کے پیچھے تقریباً ایک ہزار ڈالر کے نوٹ اخبار میں لپٹے ہوئے ملے۔ منظر میں تنہائی نے مجھ پر اثر ڈالا۔ لمحہ بھر کے لیے مجھے خواہش ہوئی کہ کاش میں اس بڈھے کا نام جانتا۔ تب، تقریباً اچانک مجھے اپنی خواہش پر پچھتاوا ہوا اور دکھ محسوس ہونے لگا۔ مجھے لگا کہ جیسے ہمارے درمیان ایک معاہدے کی خلاف ورزی سرزد ہو گئی ہے۔۔۔ کہ جیسے اس ویران کمرے میں بڈھا میرے کان میں ایک ان کہی تاریخ بول رہا تھا، ایسی باتیں جنہیں سننے کو میں ترجیح دیتا تھا۔ کوئی ایک ماہ بعد سرد، بے مہر نومبر کی صبح کو سورج بادلوں کے آنچل میں چھپ کر مدھم ہوگیا، اور تب دوسری صدا آئی، میں اپنے لیے ناشتا بنا رہا تھا، چولہے پر کافی رکھی تھی اور دو انڈے فرائی پین میں تھے، ہم کمرہ ساتھی نے مجھے فون پکڑایا۔ باری، باری، یہ تم ہو نا؟ ہاں۔۔۔ آپ کون ہیں؟ ہاں، باری۔۔۔ میں تمہاری خالہ جین ہوں۔ نیروبی سے، تم میری آواز سن رہے ہو نا؟ معذرت چاہتا ہوں۔۔۔ آپ نے کیا بتایا کہ آپ کون ہیں؟ خالہ جین۔ سنو، باری تمہارے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ کار حادثے میں مارے گئے ہیں، ہیلو؟ تم میری آواز سن رہے ہو نا؟ میں کہہ رہی ہوں کہ تمہارا باپ مر گیا ہے۔ باری پلیز بوسٹن میں اپنے انکل کو فون کرو اور اسے بتاؤ۔ میں اب بات نہیں کر سکوں گی، اوکے باری۔ میں تمہیں دوبارہ کال کرنے کی کوشش کروں گی۔۔۔ بس اتنی سی بات ہوئی۔ لائن کٹ گئی، اور میں صوفے پر بیٹھ کر کچن میں جلتے ہوئے انڈوں کی خوشبو سونگھنے لگا۔ میں پلستر میں رخنوں پر نظریں گاڑے اپنے نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا باپ اپنی موت کے وقت تک میرے لیے ایک فسانہ رہا۔ وہ محض ایک انسان نہیں تھا۔ اس نے 1963ء میں ہوائی کو خیرآباد کہا جب میری عمر صرف دو سال تھی۔ لہٰذا بچپن میں میں اسے صرف اپنی ماں اور نانا نانی کی سنائی ہوئی کہانیوں کے ذریعے جانتا تھا۔ ان سب کہانیوں میں اپنی اپنی خاص بات تھی، ہر ایک دوسری سے جڑی ہوئی اور بار بار استعمال سے ملائم ہو چکی تھی۔