سرسید احمد خان کی والدہ کی نصیحت


الطاف حسین حالی
سر سید احمد خان نے ایک شخص کا ہم سے ذکر کیا کہ جب میں صدر امین تھا تو اس کے ساتھ میں نے کچھ سلوک کیا تھا اور اس کو ایک سخت مواخذہ سے بچایا تھا ، مگر ایک مدت کے بعد اس نے میرے ساتھ درپردہ برائی کرنی شروع کی اور ایک مدت تک میری شکایت کی گمنام عرضیاں صدر میں بھیجتا رہا۔ آخر تمام وجہ ثبوت ، جس سے اس کو کافی سزا مل سکتی تھی ، میرے ہاتھ آ گئی اور اتفاق سے اس وقت مجسٹریٹ بھی وہ شخص تھا جو اس کے پھانسنے کی فکر میں تھا۔ میرے نفس نے مجھ کو انتقام لینے پر آمادہ کیا۔ میری والدہ کو جب میرا یہ ارادہ معلوم ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ در گزر کرو اور اگر بدلہ ہی لینا چاہتے ہو تو اس زبردست حاکم کے انصاف پر چھوڑ دو جو ہر بدی کی پوری سزا دینے والا ہے۔ اپنے دشمنوں کو دنیا کے کمزور حاکموں سے بدلہ دلوانا بڑی نادانی کی بات ہے۔ ان کے اس کہنے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ اس دن سے آج تک مجھ کو کبھی کسی اپنے دشمن یا بدخواہ سے انتقام لینے کا خیال نہیں آیا اور امید ہے کہ کبھی نہ آئے گا ، بلکہ ان ہی کی نصیحت کی بدولت میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آخرت میں خدا اس سے میرا بدلہ لے۔ والدہ کا نظامِ مصارف:جب کہ وہ دلی میں منصف تھے ان کو عمارات شہر اور نواحِ شہر کی تحقیقات کا خیال ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ میں اپنی کُل تنخواہ والدہ کو دے دیتا تھا۔ وہ اس میں صرف پانچ روپے مہینہ اوپر کے خرچ کے لئے مجھ کو دے دیتی تھیں ، باقی میرے تمام اخراجات ان کے ذمہ تھے۔ جو کپڑا وہ بنا دیتی تھیں پہن لیتا تھا اور جیسا کھانا وہ پکا دیتی تھیں ، کھا لیتا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی آمدنی گھر کے اخراجات کو مشکل سے مکتفی ہوتی تھی۔ ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو چکا تھا جس سے سو روپیہ ماہوار کی آمدنی کم ہو گئی تھی ، قلعہ کی تنخواہیں تقریباً بند ہو گئیں تھیں ، باپ کی ملک بھی ضبط ہو گئی تھی ، کرایہ کی آمدنی بہت قلیل تھی ، صرف سر سید کی تنخواہ کے سو روپے ماہوار تھے اور سارے کنبے کا خرچ تھا۔ (کتاب سرسید کی کہانی، سرسید کی زبانی سے اقتباس)