Dr Danish (07-27-2017)
کچھ عصمت چغتائی کے بارے میں
پطرس بخاریعصمت چغتائی کے افسانہ میں ایک لڑکی دوسری کے متعلق کہتی ہے کہ ’’سعیدہ موٹی تھی تو کیا، کمزور تو حد سے زیادہ تھی بیچاری۔ لوگ موٹاپا دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے‘‘۔ جب میں نے عصمت کی کلیاں اور چوٹیں دونوں مجموعے ختم کر لئے اور جو چند دیباچے اور مضامین ان کے مداحین اور معترضین نے ان پر از رہ تنقید و تعارف لکھے ہیں ان سے بہرہ یاب ہو چکا تو استعارے کے رنگ میں یہ فقرہ پھر یاد آیا۔ ’’لوگ موٹاپا دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے‘‘۔ اس فقرے کے معانی کو کھینچ تان کر پھیلا لیجئے، اور اس پر تھوڑا سا فلسفیانہ رنگ پھیر لیجئے تو عصمت کے بعض کمالات اور نقادوں کی بعض کوتاہیوں کو بیان کرنے کا اچھا خاص بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے جو حال فربہی کا ہے وہی حال کئی اور معروف اور متداول اور لیبلوں کا ہے جو مستعمل الفاظ اور عادات مستمرہ کی شکل میں قسم قسم کی اشیا پر چپکے نظر آتے ہیں۔ ذہنی کسالت اور خوف اور بزدلی کے مارے ہم اکثر فیصلے لیبلوں ہی کو دیکھ کر صادر کر دیتے ہیں۔ ان سے آگے نکل کر اصل چیز کو جانچنے اور تولنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتے۔ مامتا اور عشق پر دل گدازی کا لیبل مدت سے لگا ہوا ہے اس لئے جہاں ان کا ذکر آئے کہنے اور سننے والے دونوں ایک علّو اور ایک پاکیزہ رقت کے لئے پہلے ہی سے تیار ہو بیٹھتے ہیں۔ جنسی مشاغل تحقیق کہ پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان بغیر کراہت یا اخلاقی غیظ کے ہو تو لوگ برہم ہو جاتے ہیں۔عصمت چغتائی کے رہنما بھی اندھا دھند ایسے ہی کلیے ہوتے تو ادب ان کی بہترین انشا سے محروم رہ جاتا لیکن ان کی بصیرت اس سے کہیں زیادہ دوررس ہے۔ وہ لیبلوں کے فریب میں نہیں آتیں اور جسم اور دل اور دماغ کی کئی کنیتیں ایسی ہیں جن سے وہ اکیلے میں دوچار ہوتے نہیں گھبراتیں۔ ایسے انشا پرداز کا بغیر حوصلہ مشاہدہ، وقت نظر اور جرأت بیان کے گزارہ نہیں۔ اور یہ ادیب کی خوش قسمتی ہے کہ عصمت کو یہ تینوں نعمتیں میسر ہیں۔ برخلاف اس کے احساس محرومی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جرأت اور وقت نظر میں سے عصمت کے نقادوں کو حصہ وافر نہیں ملا۔ فی الحال ان کا ذکر جانے دیجئے جن کو عصمت کی تحریروں میں اپنے اخلاق اور ادب دونوں کی تباہی نظر آتی ہے وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لیبل گوند سے چپکے ہوئے نہیں میخوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ذہنوں میں ایک موٹی موٹی لکیروں والی جدول بنا رکھی ہے کہ ان چیزوں کا ذکر حلال ہے ان کا حرام ہے… ہمیں بچپن میں مطالعہ پر کوئی مجبور نہ کر سکا تو اب کسی کی کیا مجال ہے؟ ہم جب بھی کھلونے سے دل بہلاتے تھے اب بھی کھلونوں سے دل بہلائیں گے… ایسے لوگوں سے اس وقت بحث نہیں کیونکہ وہ وہاں ہیں جہاں سے ان کو بھی، کوئی ان کی خبر نہیں آتی شکایت ان سے ہے اور اپنوں کی شکایت ہے، بیگانوں کی سی نہیں۔ جو عصمت چغتائی کے قدر دان اور مداح ہیں ان لیبلوں کے مضامین کو پڑھ کر روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے ہیں جس سے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ گلہ ہے کہ وہ بھی ہر پھر کر لیبلوں ہی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ افسوس کہ عصمت مرد نہیں اور افسوس کہ لیبلوں میں سے سب سے بڑا اور گمراہ کن لیبل عورت ہے۔ مرد ذات کے قرنوں کے خرابوں اور محرومیوں سے چپکا ہوا۔ عورت دلفریب ہے، مکار ہے، صنف نازک ہے، ایک معمہ ہے، کمزور ہے، کم عقل ہے، مجموعۂ اضداد ہے۔ جہاں آپ نے عورت کا نام لیا، ان میں سے دو چار گھڑے گھڑائے معنی ذہن اُگل کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ اسی فریب میں آ کر ہونہار اور ذہین دیباچہ نویس فرماتے ہیں: ’’عصمت کے افسانے گویا عورت کے دل کی طرح پُرپیچ اور دشوار گزار نظر آتے ہیں۔ میں شاعری نہیں کر رہا اور اگر اس بات میں شاعری ہے تو اسی حد تک جہاں تک شاعری کو سچی بات میں دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ افسانے اس جوہر سے متشابہ معلوم ہوتے ہیں جو عورت میں ہے۔ اس کی روح میں ہے۔ اس کے دل میں ہے۔ اس کے ظاہر میں ہے۔ اس کے باطن میں ہے۔ ‘‘ اب نہ معلوم اس نوجوان نقاد کے تصور نے عورت کا لیبل کس قسم کی چیزوں پر لگا رکھا ہے۔ یہ معلوم ہوتا تو وہ جوہر بھی کھلتا جو بقول ان کے عصمت کے افسانوں میں ہے لیکن ان کے رنگین تصورات و مفروضات کے خلوت کدہ میں ہمیں کیونکر باریابی ہو سکتی ہے اور کوئی ایسی ڈکشنری بھی نہیں جس میں عورت کے وہ معنی مل جائیں جو اس تنقید کی تہہ میں کام کر رہے ہیں۔ (اقتباس) ٭…٭…٭ پطرس بخاری عصمت چغتائی کے افسانہ میں ایک لڑکی دوسری کے متعلق کہتی ہے کہ ’’سعیدہ موٹی تھی تو کیا، کمزور تو حد سے زیادہ تھی بیچاری۔ لوگ موٹاپا دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے‘‘۔ جب میں نے عصمت کی کلیاں اور چوٹیں دونوں مجموعے ختم کر لئے اور جو چند دیباچے اور مضامین ان کے مداحین اور معترضین نے ان پر از رہ تنقید و تعارف لکھے ہیں ان سے بہرہ یاب ہو چکا تو استعارے کے رنگ میں یہ فقرہ پھر یاد آیا۔ ’’لوگ موٹاپا دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے‘‘۔ اس فقرے کے معانی کو کھینچ تان کر پھیلا لیجئے، اور اس پر تھوڑا سا فلسفیانہ رنگ پھیر لیجئے تو عصمت کے بعض کمالات اور نقادوں کی بعض کوتاہیوں کو بیان کرنے کا اچھا خاص بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے جو حال فربہی کا ہے وہی حال کئی اور معروف اور متداول اور لیبلوں کا ہے جو مستعمل الفاظ اور عادات مستمرہ کی شکل میں قسم قسم کی اشیا پر چپکے نظر آتے ہیں۔ ذہنی کسالت اور خوف اور بزدلی کے مارے ہم اکثر فیصلے لیبلوں ہی کو دیکھ کر صادر کر دیتے ہیں۔ ان سے آگے نکل کر اصل چیز کو جانچنے اور تولنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتے۔ مامتا اور عشق پر دل گدازی کا لیبل مدت سے لگا ہوا ہے اس لئے جہاں ان کا ذکر آئے کہنے اور سننے والے دونوں ایک علّو اور ایک پاکیزہ رقت کے لئے پہلے ہی سے تیار ہو بیٹھتے ہیں۔ جنسی مشاغل تحقیق کہ پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان بغیر کراہت یا اخلاقی غیظ کے ہو تو لوگ برہم ہو جاتے ہیں۔عصمت چغتائی کے رہنما بھی اندھا دھند ایسے ہی کلیے ہوتے تو ادب ان کی بہترین انشا سے محروم رہ جاتا لیکن ان کی بصیرت اس سے کہیں زیادہ دوررس ہے۔ وہ لیبلوں کے فریب میں نہیں آتیں اور جسم اور دل اور دماغ کی کئی کنیتیں ایسی ہیں جن سے وہ اکیلے میں دوچار ہوتے نہیں گھبراتیں۔ ایسے انشا پرداز کا بغیر حوصلہ مشاہدہ، وقت نظر اور جرأت بیان کے گزارہ نہیں۔ اور یہ ادیب کی خوش قسمتی ہے کہ عصمت کو یہ تینوں نعمتیں میسر ہیں۔ برخلاف اس کے احساس محرومی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جرأت اور وقت نظر میں سے عصمت کے نقادوں کو حصہ وافر نہیں ملا۔ فی الحال ان کا ذکر جانے دیجئے جن کو عصمت کی تحریروں میں اپنے اخلاق اور ادب دونوں کی تباہی نظر آتی ہے وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لیبل گوند سے چپکے ہوئے نہیں میخوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ذہنوں میں ایک موٹی موٹی لکیروں والی جدول بنا رکھی ہے کہ ان چیزوں کا ذکر حلال ہے ان کا حرام ہے… ہمیں بچپن میں مطالعہ پر کوئی مجبور نہ کر سکا تو اب کسی کی کیا مجال ہے؟ ہم جب بھی کھلونے سے دل بہلاتے تھے اب بھی کھلونوں سے دل بہلائیں گے… ایسے لوگوں سے اس وقت بحث نہیں کیونکہ وہ وہاں ہیں جہاں سے ان کو بھی، کوئی ان کی خبر نہیں آتی شکایت ان سے ہے اور اپنوں کی شکایت ہے، بیگانوں کی سی نہیں۔ جو عصمت چغتائی کے قدر دان اور مداح ہیں ان لیبلوں کے مضامین کو پڑھ کر روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے ہیں جس سے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ گلہ ہے کہ وہ بھی ہر پھر کر لیبلوں ہی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ افسوس کہ عصمت مرد نہیں اور افسوس کہ لیبلوں میں سے سب سے بڑا اور گمراہ کن لیبل عورت ہے۔ مرد ذات کے قرنوں کے خرابوں اور محرومیوں سے چپکا ہوا۔ عورت دلفریب ہے، مکار ہے، صنف نازک ہے، ایک معمہ ہے، کمزور ہے، کم عقل ہے، مجموعۂ اضداد ہے۔ جہاں آپ نے عورت کا نام لیا، ان میں سے دو چار گھڑے گھڑائے معنی ذہن اُگل کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ اسی فریب میں آ کر ہونہار اور ذہین دیباچہ نویس فرماتے ہیں: ’’عصمت کے افسانے گویا عورت کے دل کی طرح پُرپیچ اور دشوار گزار نظر آتے ہیں۔ میں شاعری نہیں کر رہا اور اگر اس بات میں شاعری ہے تو اسی حد تک جہاں تک شاعری کو سچی بات میں دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ افسانے اس جوہر سے متشابہ معلوم ہوتے ہیں جو عورت میں ہے۔ اس کی روح میں ہے۔ اس کے دل میں ہے۔ اس کے ظاہر میں ہے۔ اس کے باطن میں ہے۔ ‘‘ اب نہ معلوم اس نوجوان نقاد کے تصور نے عورت کا لیبل کس قسم کی چیزوں پر لگا رکھا ہے۔ یہ معلوم ہوتا تو وہ جوہر بھی کھلتا جو بقول ان کے عصمت کے افسانوں میں ہے لیکن ان کے رنگین تصورات و مفروضات کے خلوت کدہ میں ہمیں کیونکر باریابی ہو سکتی ہے اور کوئی ایسی ڈکشنری بھی نہیں جس میں عورت کے وہ معنی مل جائیں جو اس تنقید کی تہہ میں کام کر رہے ہیں۔ (اقتباس) ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Dr Danish (07-27-2017)
Thanks for sharing
intelligent086 (08-01-2017)
رائے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks