آئن سٹائن کی ذہانت اور عجیب و غریب عادات
ر۔ع
کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ذہن ترین افراد کی بعض عادات عجیب و غریب اور منفرد ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر 1727ء میں مرنے کے وقت نیوٹن ایک کروڑ الفاظ پر مشتمل ڈائریاں لکھ چکا تھا۔ نیز اس نے ساری عمر شادی نہیں کی ۔ شواہد بتاتے ہیں کہ سن بلوغت میں انتہائی ذہین افراد او ر نالائق افراد میں فرق کی 40فیصد وجہ ماحول ہوتا ہے۔ روز مرہ کی عادات انسانی دماغ پر خاصی اثرانداز ہوتی ہیں اور سوچ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن کی ذہانت کی ساری دنیا معترف ہے۔ آئیے اس کی عادات کا جائزہ لیتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ذہانت سے کیا تعلق تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دماغ کے لیے نیند اچھی ہے۔ لیکن آئن سٹائن نے حد کردی تھی۔ اس کے بارے مشہور ہے کہ وہ 10 گھنٹے سویا کرتا تھا۔ آئن سٹائن کے ذہن میں مبینہ طور پر اس وقت نظریہ اضافیت کا خیال آیا جب وہ غنودگی کے عالم میں تھا اور خواب دیکھ رہا تھا کہ گائیں بجلی سے ہلاک کی جا رہی ہیں۔ کیا ایسا ہو بھی سکتا ہے؟ جرمنی کی ایک یونیورسٹی میںنیند اور ذہانت کے تعلق پر ڈیڑھ دہائی قبل ایک تجربہ کیا گیا۔ اس میں رضاکاروں کو مختلف کھیل سکھائے گئے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ جو رضاکار زیادہ سوئے انہوں نے زیادہ جلدی سیکھا۔ سوتے ہوئے دماغ مختلف کام مختلف مدارج میں سرانجام دیتا ہے۔ ہر 90 سے 120 منٹ میں دماغ کچی اور پکی نیند کی طرف آتا اور جاتا رہتا ہے۔ اس دوران خواب آتے ہیں۔ اس حالت میں بند آنکھیں تیزی سے حرکت کرتی دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس عمل کے دوران یادداشت اور آموزش بہتر ہوتی ہے۔ لیکن معاملہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ہم اپنی نیند کے 60 فیصد حصے کے دوران بند آنکھوں کو تیز حرکت نہیں دیتے۔ ایسی نیند میں دماغ انتہائی سرگرم ہوتا ہے۔ یہ اندرونی سرگرمی مختلف وقفوں سے ہوتی ہے جو چند سیکنڈ کے بھی ہوسکتے ہیں۔ نیند کے دوران ایسے ہزاروں وقفے آتے ہیں۔ جتنا زیادہ کوئی فرد سوتا ہے اتنے زیادہ ایسے وقفے آتے ہیں۔ یہ ذہانت میںمعاون ہوتے ہیں۔ آئن سٹائن جیسی ذہانت یاد کرنے یارٹا لگانے سے نہیں آتی۔ اس کے لیے ذرا ہٹ کر سوچنے اور منطق استعمال کر نے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ آئن سٹائن نصابی کتب کو یاد کرنا یا رٹا لگاناناپسند کرتا تھا۔ اسے سکول کی تعلیم سے نفرت تھی۔ یہ مطلب نہ لیا جائے کہ زیادہ سو کر آئن سٹائن جیسابنا جاسکتا ہے۔ بہرحال نیند اور ذہانت میں تعلق کے شواہد قوی ہیں۔ ایک اور حالیہ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ عورتوں میں رات کی نیند اور مردوں میں قیلولہ ذہانت اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ آئن سٹائن باقاعدگی سے قیلولہ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ روزانہ چہل قدمی کرتا تھا۔ جن دنوں وہ نیوجرسی میں پرنسٹن یونیورسٹی میں کام کررہا تھا وہ ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چلتا اور واپس آتا۔ یہ محض جسمانی فٹنس کا معاملہ نہیں بلکہ ایسے بہت سے شواہد موجود ہیںجن سے پتا چلتا ہے کہ پیدل چلنے سے یادداشت، اور تخلیقی اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اگر کوئی عجیب و غریب حرکات کر رہا ہو تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جانے اس نے کیا کھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئن سٹائن کیا شوق سے کھاتا تھا۔ آئن سٹائن نے ایک بارمذاق کرتے ہوئے یا شاید سنجیدگی سے کہا تھا کہ اٹلی میں اس کی پسندیدہ چیزیں سپیگیٹی اور لیوی سیویٹا (ایک ریاضی کا ماہر) ہے ۔ انسانی دماغ کو توانائی کی بہت ضرورت ہے۔ انسانی جسم کی 20فیصد توانائی دماغ کھا جاتا ہے حالانکہ اس کا وزن پورے جسم کا صرف دو فیصد ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جسم اور دماغ کے تناسب کے لحاظ آئن سٹائن کا دماغ اوسط انسانی دماغ سے چھوٹا تھا۔ جسم کی طرح دماغ کو بھی شکر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی تحلیل کے لیے کاربوہائیڈریٹس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اعصاب کو ان کی مستقل فراہمی چاہیے۔ دماغ توانائی محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھا۔ اس لیے کاربوہائیڈریٹس کی کمی دماغی افعال کو سست رفتار بنا دیتی ہے۔ اگر یہ کمی مسلسل ایک ہفتہ رہے تو دماغ توانائی کے دوسرے ذرائع مثلاً کاربوہائیڈریٹس سے مدد لیتا ہے۔ شواہد کے مطابق ہمیں 25 گرام کاربوہائیڈریٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ سپیگیٹی کے 37 ریشوں سے یہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم کاربوہائیڈریٹس اور دماغی کارکردگی میں اضافے کی گتھی ابھی تک سائنس نے پوری طرح سلجھائی نہیں۔ تمباکو نوشی بہت نقصان دہ ہے اوراس کی عادت جان لیوا امراض کا باعث بن سکتی ہے۔ آئن سٹائن پائپ کے ذریعہ تمباکو نوشی کرتا تھا۔ کیا اس کا بھی ذہانت سے کوئی تعلق ہے؟ یہ بھی ایک الجھا ہوا سوال ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عمر، تعلیم اور نسل کے فرق سے ماورا یہ پایا گیا کہ زیادہ ذہین افراد زیادہ سگریٹ پیتے ہیں۔ لیکن برطانیہ میں اس کے الٹ ہے، یعنی وہاں تمباکو نوشی کرنے والے اوسط سے کم درجہ ذہانت کے حامل ہیں۔ لہٰذا تمباکو نوشی کے بل بوتے پر بڑا ادیب، شاعر، فلسفی یا سائنس دان بننے کی کوشش بے سود جا سکتی ہے۔آئن سٹائن کی ایک اور عادت بھی عجب تھی۔ وہ جرابیںپہننے سے گریز کرتا تھا۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Great
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks