SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: حسن طارقایک بے مثل ہدایت کار , ان کی سپرہٹ فل

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      حسن طارقایک بے مثل ہدایت کار , ان کی سپرہٹ فل

      حسن طارق…ایک بے مثل ہدایت کار , ان کی سپرہٹ فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے…فلموں میں کئی تجربے کیے




      عبدالحفیظ ظفر
      کسی بھی فلم کی کامیابی میں صرف ایک شخص کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ کئی افراد مل کر اس کی کامیابی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ فلم شائقین کے نزدیک سب سے اہم اداکار ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ داد انہی کو ملتی ہے۔ لیکن سکرپٹ رائٹر‘ مکالمہ نگار‘ موسیقار اور دیگر بہت سے افراد کو لوگ بھول جاتے ہیں یا ان کی طرف شائد زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ فلم کے اہم ترین شخص کا تذکرہ کم ہی کیا جاتا ہے جو کہ فلم کا ہدایتکار ہوتا ہے۔ ہدایتکار کسی بھی فلم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں بڑے ذہین ہدایتکار پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت شاہکار فلمیں بنائیں۔ بھارت میں محبوب خان ‘ بمل رائے‘ گلزار‘ رشی کیش مکرجی‘ ایس یوسنی‘ بی آر چوپڑہ‘ یش چوپڑہ‘ رمیش سپی‘ سنجے لیلا بھنسالی‘ رام گوپال شرما اور راج کمار ہرانی نے بطور ہدایتکار بہت نام کمایا۔ انہوں نے بھارتی فلمی صنعت کو یادگار فلمیں دیں۔ پاکستانی فلمی صنعت بھی اس لحاظ سے خاصی خوش قسمت رہی کہ اس کے پاس بھی اعلیٰ درجے کے ہدایتکار تھے جن میں انور کمال پاشا‘ جعفر ملک‘ الطاف حسین‘ نذرالاسلام‘ ریاض شاہد‘ حسن عسکری‘ یونس ملک‘ اقبال کشمیری‘ ایم اکرم‘ سید نور اور کئی دوسرے شامل ہیں۔ لیکن کیا یہ فہرست حسن طارق کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ حسن طارق ایک منفرد ہدایت کار تھے جنہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کیلئے ایسی فلمیں بنائیں جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔حسن طارق کی باکس آفس پر کامیاب ہونے والی فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کی سب سے مشہور فلموں میں بنجارن‘ شکوہ‘ کنیز‘ پھنے خان‘ دیور بھابھی‘ شمع اور پروانہ‘ انجمن‘ تہذیب، امراء جان ادا‘ بہشت‘ ثریا بھوپالی اور سنگدل شامل ہیں۔ حسن طارق ہر فلم میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ وہ انور کمال پاشا کے شاگرد تھے اور انہوں نے آغاز ہی میں یہ سب کو دکھا دیا تھا کہ وہ ایک ذہین و فطین ہدایتکار ہیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر 44 فلموں کی ہدایتکاری کی جن میں صرف دو پنجابی فلمیں تھیں جبکہ باقی سب اردو فلمیں تھیں۔ انہوں نے سب سے پہلے 1959میں فلم ’’نیند‘‘ کی ہدایتکاری کے فرائض سرانجام دئیے۔ یہ فلم ایک اچھوتے موضوع پر بنائی گئی تھی جس نے فلمی پنڈتوں کو چونکا کے رکھ دیا۔ شائقین فلم نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا۔ اس میں نورجہاں‘ اسلم پرویز‘ علائو الدین اور اسد جعفری نے اہم کردار ادا کیے۔ پہلی بار اسلم پرویز کو ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس ولن کو اینٹی ہیرو کا نام دیا گیا۔ ’’نیند‘‘ کو آج بھی پاکستان کی بڑی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے 1962ء میں فلم ’’بنجارن‘‘ کی ہدایتکاری کے فرائض سرانجام دئیے۔ یہ بھی ایک باکمال فلم تھی جس میں نیلو‘ کمال‘ نرالا‘ ابراہیم نفیس اور علائو الدین نے بڑی شاندار اداکاری کی تھی۔ اس فلم میں مسعود رانا نے بطور گلوکار اپنی صلاحیتوں کو منوایا تھا۔گیت نگار مسرور انور نے بھی اس فلم سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ 1963ء میں انہوں نے ’’شکوہ‘‘ بنائی جو بڑی کامیاب ہوئی۔ اس فلم میں صبیحہ خانم نے شاندار اداکاری سے بڑے بڑے فلمی پنڈتوں کو ششدر کر دیا۔ انہوں نے ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کیا حالانکہ اس وقت ان کی عمر 27 برس تھی۔ پھر ان کی فلم ’’قتل کے بعد‘‘ باکس آفس پر ناکام رہی۔ 1965ء میں حسن طارق کی دو ایسی فلمیں ریلیز ہوئیں جنہوں نے ہر طرف تہلکہ مچا دیا۔ ایک فلم تھی ’’پھنے خان‘‘ اور دوسری تھی ’’کنیز‘‘۔ ’’پھنے خان‘‘ کا مرکزی کردار عوامی اداکار علائو الدین نے ادا کیا تھا اور یہ ان کی شاہکار فلموں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ سدھیر‘ سلونی اور شیریں کی کارکردگی بھی لاجواب تھی۔ حزیں قادری کے دلکش گیتوں کو سلیم اقبال نے اپنی خوبصورت موسیقی سے امر بنا دیا تھا۔ جہاں تک ’’کنیز‘‘ کا تعلق ہے تو اس بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس فلم میں بھی صبیحہ خانم نے ینگ ٹو اولڈ کردار انتہائی شاندار طریقے سے ادا کیا تھا۔ فلم میں محمد علی اور وحید مراد نے بھی متاثر کن ادا کاری کی تھی۔ 1966ء میں ان کی تین فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں ’’مجبور‘‘ ’’تقدیر‘‘ اور ’’سوال‘‘ شامل ہیں۔ ’’مجبور‘‘ اور ’’تقدیر‘‘ کو زیادہ کامیابی نہ ملی لیکن ان کی فلم ’’سوال‘‘ باکس آفس پر کامیاب ہوئی۔ اس کے فلم گیت بھی سپرہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم میں انہوں نے اعجاز سے منفی کردار ادا کروایا جو انہوں نے بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ 1967ء میں انہوں نے ’’دیور بھابھی‘‘ کی ہدایات دیں جو بے حد کامیاب ہوئی۔ اس فلم سے اداکارہ رانی کے عروج کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ اس سے پہلے رانی کی متعدد فلمیں فلاپ ہو چکی تھیں۔ 1968ء میں ان کی فلم ’’بہن بھائی‘‘ نے فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ اس فلم میں ندیم‘ دیبا‘ کمال‘ اسلم پرویز اور اعجاز نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کمال نے مزاحیہ اداکاری سے شائقین فلم کے دل جیت لئے۔ 1969ء میں ان کی فلمیں ’’ماں بیٹا‘‘ اور ’’پاک دامن‘‘ زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ 1970ء میں ان کی فلم ’’انجمن‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغمات نے بھی خوب دھوم مچائی۔ رانی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور انہوں نے یہ کردار ادا کر کے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ’’شمع اور پروانہ‘‘ ایک نغماتی فلم تھی لیکن یہ حسب توقع کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے بعد انہوں نے 1971ء میں ’’تہذیب‘‘ بنائی۔ اس میں انہوں نے رانی کے مقابل خوبرو ہیرو شاہد کو کاسٹ کیا۔ یہ فلم زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ پھر شاہد تو باقاعدہ حسن طارق کے شاگرد بن گئے۔ اس فلم کے تمام اداکاروں کی کارکردگی قابل تحسین تھی لیکن رانی کی اداکاری کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ سیف الدین سیف کے گیتوں کی موسیقی نثار بزمی نے دی اور اس فلم کے نغمات بھی سپرہٹ ہوئے۔ ’’انجمن‘‘ میں بھی رونا لیلیٰ کے گائے ہوئے گیت ہٹ ہوئے اور پھر ’’تہذیب‘‘ میں بھی رونا لیلیٰ نے کمال کر دکھایا۔ 1973ء میں ان کی سب سے یادگار فلم’’امرائو جان ادا‘‘ ریلیز ہوئی جسے عظیم کامیابی ملی۔ اس فلم کے موسیقار نثار بزمی نے سوائے ایک کے باقی تمام گیت رونا لیلیٰ سے گوائے تھے۔ فلم کا آخری گیت ’’جو بچا تھا وہ لٹانے کیلئے آئے ہیں‘‘ میڈم نورجہاں نے گایا تھا۔1975ء میں ان کی ایک اور شاہکار فلم ’’اک گناہ اور سہی‘‘ ریلیز ہوئی جس میں محمد علی‘ رانی اور صبیحہ خانم نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ صبیحہ خانم کو بہترین اداکاری پر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ اس کے بعد حسن طارق کی فلمیں ناکامی سے دوچار ہونے لگیں۔ انہوںنے رانی سے شادی کر لی تھی جو ان کی تیسری بیوی تھیں۔ 1982ء میں ان کی آخری فلم ’’سنگدل‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں پاپ سنگر نازیہ حسن کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ یہ فلم بہت کامیاب ثابت ہوئی۔ اسی سال حسن طارق اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ حسن طارق نے پاکستانی فلمی صنعت کی بہت خدمت کی۔ اداکار شاہد تو اب تک یہ کہتے ہیں کہ ان کو حسن طارق نے ہی تراشا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ حسن طارق ہی وہ ہدایتکار تھے جنہوں نے ان کی صلاحیتوںکو درست طریقے سے استعمال کیا۔ پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں حسن طارق کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ٭…٭…٭







      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. #2
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      BDunc's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      8,431
      Threads
      678
      Thanks
      300
      Thanked 249 Times in 213 Posts
      Mentioned
      694 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      119

      Re: حسن طارقایک بے مثل ہدایت کار , ان کی سپرہٹ ف

      Nice nice


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •