بیگم ثاقبہ رحیم الدین




نسیم اختر
بیگم ثاقبہ رحیم الدین کا نام علمی و ادبی حلقوں میں اگرچہ ’’قلم قبیلہ‘‘ کی وساطت سے متعارف ہوا اور انہوں نے علمی وادبی مضامین بھی لکھے ہیں لیکن بچوں کے ادب کے حوالے سے ان کی شناخت نسبتاً نمایاں ہے۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے صبح کا تارا، جاگوجاگو، دوستو چلے چلو، سورج ڈھلے، کرنیں اورچاند نکلا کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ مصنفہ نے تخیلاتی کہانیوں کے علاوہ بہت سی کہانیاں موجودہ معاشرے سے اخذ کی ہیں اور چونکہ یہ کہانیاں روایتی نہیں اس لیے ان کی ابتداء وانتہاء بھی غیر روایتی اورغیر رسمی ہے۔ ’’پیارے بچو! بہت پرانے وقتوں کی بات ہے۔ جب نہ ہم تھے اور نہ تم۔ منوڑا نامی ایک چھوٹی سی بستی کراچی کے سمندر کنارے آباد تھی۔ ایک چھوٹی سی لڑکی کلفٹن میں ایک گھرمیں رہا کرتی تھی۔ کلفٹن کراچی میں سمندر کے کنارے کاعلاقہ ہے اوریہاں شام ہوتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے‘‘۔ ’’میرے بچو! بڑی مشکل سے تو یہ پروگرام بن پایا ہے کہ ہم اورتم ’’دامن کہسار‘‘ اسلام آباد کی سیر کرسکیں۔‘‘ مصنفہ نے پاکستان کے مختلف علاقوں کے بارے میں کہانی کے انداز میں جو معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کی تحسین کرتے ہوئے ڈاکٹرفرمان فتح پوری لکھتے ہیں۔’’ان کہانیوں میں اخلاقی قدروں کے خاموش پرچار سے آگے بڑھ کرثاقبہ رحیم الدین نے پاکستانی بچوں کو پاکستان کا جغرافیہ، پاکستان کی تاریخ، پاکستان کے شہرو قصبات، کھیت کھلیان، باغ و ارض، دریا، پہاڑ، سردی گرمی، بارش طوفان، رہن سہن، صنعت و حرفت اورکسان و مزدورسب کے بارے میں اتنا کچھ بتا دیا ہے اوربچوں کے دلوں میں پاکستان کی اہمیت اس انداز سے اتار دی ہے کہ کہانی کار کی حیثیت سے پاکستانی بچوں کے کردار و شخصیت کی تعمیر کا حق ادا کر دیا ہے۔‘‘ثاقبہ رحیم الدین نے آسان اور دلکش پیرائے میں پاکستانی بچوں کوپاکستان کی تاریخ و جغرافیہ سے آشنا کرنے کی جو کاوش کی ہے وہ اپنی جگہ قابل تحسین ضرور ہے لیکن اس اہتمام کی وجہ سے بعض کہانیاں محض معلوماتی مضامین بن کر رہ گئی ہیں مثلاً چھوٹوں سے پیار (مشمولہ چاند نکلا) ڈائنو سار سے متعلق معلوماتی مضامین کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ جی تم سچ مچ پیارے ہو (جو جاگو جاگو کے علاوہ کرنیں میں بھی شامل ہے) ہنزا کے بارے میں معلوماتی مضمون کی شکل اختیار کر گیا ہے البتہ اس کا خوبصورت اسلوب پڑھنے والوں کی توجہ جذب کرتا ہے۔’’یوں تو ناردن ایریاز میں پہاڑوں کی شاندار چوٹیاں، حسین وادیاں اورگلیشیر موجود ہیں اورلہراتے دریا اور جھومتے چشمے بھی نظر آتے ہیں مگرہنزا اورنگر کی ریاستوں کاکیا کہنا۔ ایسا لگتا ہے کہ سارا علاقہ ایک جادو کی نگری ہے۔ ‘‘یوں لگتا ہے کہ مصنفہ نے ابتدائی چند کہانیوں کوچھوڑ کرزیادہ ترکہانیاں نسبتاً بڑی عمر کے بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ پھربچوں کی کتابوں میں نامور اہل قلم کے دانشورانہ، تبصرے بھی عجیب سے لگتے ہیں۔ بچوں کو بالعموم ان چیزوں سے دلچسپی نہیں ہوتی تاہم ان باتوں کے باوجود بچوں کے ادب کے حوالے سے ثاقبہ رحیم الدین کی خدمات سے انکار نہیں کیاجاسکتا اوران کی کہانیاں روشنی قصہ، ایک سفید خرگوش ، ذہین طوطا، سارا کی کہانی، سونا درزی، کرنیں اور انعام وغیرہ میں دلچسپی اورمقصدیت باہم پیوست ہیں ۔