اسی ء کی دہائی اور اس کے بعد پاکستانی فن تعمیر



شیخ نوید اسلم
80ء کی دہائی میں تعمیرات کی تمام اقسام خاص طور پر رہائشی اور تجارتی اقسام انقلابی اہمیت کی حامل ہیں۔ تاہم نیز علی دادا، پرویز اقبال، ارشد چودھری، رفیع گروپ، میاں رفیق اور دیگر ترقی پسند ماہرین تعمیرات نے عظیم الشان عمارتیں تخلیق کیں۔ ماہرین تعمیرات اس وقت انتہائی جدیدیت میں داخل ہو گئے جب ماہر تعمیرات غیور اور نیز علی دادا نے ایمپائر سنٹر اور سنٹر پوائنٹ جیسی عمارتیں تعمیر کیں۔ عوامی سطح پر ان دونوں منصوبوں نے بہتر شہرت حاصل کی خصوصاً اپنی کشادہ جگہ کی وجہ سے ان عمارتوں کو خاصی عوامی پذیرائی ملی۔ غیور نے ایک نئے تجارتی نظرئیے کو تخلیق کیا۔ جس میں اجتماعیت بنیادی اہمیت کی حامل نہیں تھی بلکہ جگہ کے ادراک کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی۔ پاکستان میں پہلی بار ناظرین کے لیے عمارت کو بیرونی طور پر حسین انداز میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن دکانوں اور دفاتر کے لیے کشادہ جگہ کے خیال نے پہلی مرتبہ جنم لیا۔ جگہ کے اس نئے تصور کے بانی نیز علی دادا ہیں ان کے نقشہ نویسی کے تصورات مکمل طور پر ماضی اور حال کے تجزیات پر مبنی ہوتے ہیں۔ انہوں نے سنٹر پوائنٹ کا نقشہ لاطینی طرز پر بنایا لیکن اس میں انہوں نے مغلیہ عنصر کو بھی شامل رکھا ہے۔ان تجربات اور ایجادات کے بعد پاکستان کا فن تعمیر 90ء کی دہائی میں داخل ہوتا ہے اور موجودہ دور تک پہنچتا ہے ہمارے دور میں فن تعمیرات میں تصور اور مکتبہ فکر کی کوئی قید نہیں ہے۔عالمی تعمیراتی دنیا نے مشاہدہ کرنے والوں میں اعلیٰ پیمانے پر آگہی پیدا کردی ہے یہ نہ صرف ماہرین تعمیرات بلکہ صارفین کے لیے بھی علم اور تجربات کا ایک نیا عہد ہے ۔ صارف اپنے اسلوب اور تصور کے بارے میں بہت باشعور ہو چکا ہے۔ اب بصری ماحول میں کوئی عدم توازن نہیں ہے۔ صارف اپنی جگہ کے تصورات سے بخوبی آگاہ ہے اس ماحول میں بہت سے ماہرین تعمیرات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مستقبل کا تصور تخلیق کر رہے ہیں۔ کل کو سمجھنا اس وقت بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب کوئی جگہ سے متعلق اپنے احساسات کو سمجھ سکتا ہے۔ ملک بھر میں خصوصاً کراچی، لاہور، اور راولپنڈی کی ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں انقلابی تعمیرات تخلیق کی جارہی ہیں۔ بصری افق کے نئے تصور نے شہری منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ماہر تعمیرات خالد رحمن عالمگیریت کے اس دبائو کے نتیجے میں اسی جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ان کا کوئی مخصوص نظریہ نہیں ہے لیکن کمپیوٹرٹیکنالوجی کے ذریعے وہ تمام سماجی، ثقافتی اور موسمیاتی تصورات کو پارہ پارہ کر رہے ہیں جو ان کے تخلیق کردہ منصوبوں میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ رئیس فہیم ، زیادہ تر رہائشی تعمیرات پر کام کرتے ہیں اپنی تعمیرات میں محرابی خطوط استعمال کرتے ہیں اور ان کو وہ بطور اپنی شناخت کے پیش کرتے ہیں۔ ان کے ڈیزائنوں کے تصورات تجارتی بنیادوں پر مبنی ہوتے ہیں۔یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ ایک مثالی تعمیر ہمیشہ اس کی سادگی اور سیدھے خطوط میں ہوتی ہے جیسا کہ مہدی علی مرزا اور لاری کے تصورات میں پایا جاتا ہے۔ روایتی ماہر تعمیرات اور ماضی اور حال کا مرکب پیش کرنے والے نیز علی دادا واحد ماہر تعمیرات ہیں جنہوں نے اپنی تمام پیشہ وارانہ زندگی میں جدید فن تعمیرات کو ماضی سے ملانے کی کوشش کی ہے وہ جدیدیت پر یقین رکھتے ہیں لیکن عمارت کی مصنوعی زیبائش میں نہیں ۔ وہ جگہ کے نئے تصور کے خالق ہیں اور انہیں وہ بڑے واضح انداز میں ڈیزائن کرتے ہیں۔ جبکہ کامل خان ممتاز تجدیدیت کے حامی ہیں۔ نیز علی دادا اپنی جہت میں مستقبل شناس ہیں ان کے اس اسلوب کو ان کی ڈیزائن کردہ متعدد عمارتوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال الحمرا آرٹس کونسل لاہور کی عمارت ہے۔ ٭…٭…٭