پہلا کرکٹ ورلڈ کپ




عبد الحفیظ ظفر
جب سے ایک روزہ کرکٹ میچوں کا آغاز ہوا ہے بڑے بڑے دلچسپ معرکے ہوئے ہیں۔ شائقین کرکٹ نے بڑے زبردست مقابلے دیکھے اور وہ لطف اندوز ہوئے۔ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز 1975 ء میں ہوا تھا ۔ اور یہ ورلڈ کپ انگلینڈ میں کھیلا گیا تھا ۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان ، سری لنکا ، بھارت ، انگلینڈ ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیموں کا طوطی بولتا تھا۔ پاکستانی ٹیم بھی ان سے کم نہیں تھی۔ اس وقت عالمی کرکٹ کے جن نامور کھلاڑیوں نے اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیا ان میں آئن چیپل ، کلائیو لائیڈ، سرویون رچرڈز، ماجد خان، سرفراز نواز ، مشتاق محمد ، ڈینس للی، جیف تھامسن اور کئی دوسرے شامل تھے ۔ ٹورنامنٹ میں ایک میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلا گیا تھا جو انتہائی سنسنی خیز تھا۔ اس وقت پاکستانی ٹیم کی قیادت آصف اقبال کررہے تھے جبکہ ویسٹ انڈیز کی کپتانی کے فرائض کلائیو لائیڈ سر انجام دے رہے تھے ۔ ہوا یوں کہ میچ سے ا یک دن پہلے آصف اقبال کو طبیعت کی خرابی کے باعث ہسپتال داخل ہونا پڑا اور ان کی جگہ ماجد خان کو کپتانی کے فرائض سونپ دیئے گئے ۔ اس ٹیم میں ماجد خان ، ظہیر عباس ، سرفراز نواز، آصف مسعود ، پرویز میر ، وسیم راجہ ، مشتاق محمد اور وسیم باری جیسے کھلاڑی شامل تھے ۔ ایک اور کھلاڑی کا تذکرہ بے حد ضروری ہے اور اس کھلاڑی کا نام ہے جاوید میاں داد۔ جاوید میاں داد کا یہ پہلا ایک روزہ میچ تھا اور اس وقت تک انہوں نے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا تھا۔ اس وقت وہ صرف 18 برس کے تھے ۔ اس بات کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ میاں داد بلے باز تو تھے ہی لیکن اس وقت وہ لیگ سپن بائولنگ بھی کرتے تھے ۔ اس وقت 60 اوورز کا میچ ہوتا تھا اور اتنی زیادہ تیز کرکٹ نہیں کھیلی جاتی تھی۔ 60 اوورز میں جو ٹیم 250 یا 260 رنز بنا لیتی تھی وہ اکثر فتح یاب ہو جاتی تھی۔ ہربائولر کو 12 اوور کرانے کی اجازت تھی۔ بہر حال پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ شروع ہوا۔ پاکستان نے پہلے بلے بازی شروع کی۔ ماجد خان ، مشتاق محمد ، ظہیر عباس اور وسیم راجہ نے شاندار بلے بازی کی اور ویسٹ انڈیز کے بائولرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پاکستان نے 266رنز بنائے جو اچھا خاصا سکور تھا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی بڑے زبردست کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے روہن کہنائی کو بھی ٹیم میں شامل کر رکھا تھا جو کہ غالباً ریٹائر ہو چکے تھے۔ پاکستانی فاسٹ بائولرز میں سرفراز نواز ، آصف مسعود، نصیر ملک اور پرویز میر شامل تھے جبکہ سپن بائولنگ میں مشتاق محمد اور وسیم راجہ اپنے جوہر دکھانے کے لئے موجود تھے ۔ جاوید میاں داد سے بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر ان سے بھی بائولنگ کرائی جاسکتی ہے۔ اب ویسٹ انڈیز نے بلے بازی شروع کی۔ ان کے ابتدائی بلے بازوں نے پر اعتماد طریقے سے کھیلنا شروع کیا لیکن پاکستانی فاسٹ بائولرز نے بڑی عمدہ کارکردگی دکھائی اور ان کو کھل کر نہ کھیلنے دیا۔ پاکستان کے سبھی فاسٹ بائولرز نے عمدہ بائولنگ کی اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کو مصیبت میں ڈال دیا۔ سرفراز نواز نے چار وکٹیں حاصل کیں ، پرویز میر، نصیر ملک اورآصف مسعود نے بھی وکٹیں حاصل کیں۔ ایک موقع پر خیال کیاجارہا تھا کہ پاکستان کی فتح میں اب صرف لائیڈ ہی حائل ہیں۔ اور اگر یہ دیوار گرادی جائے تو پاکستان کے لئے فتح کا حصول آسان ہو جائے گا۔ اس موقع پر کپتان ماجد خان نے جاوید میاں داد کو باؤلنگ کیلئے بلایا اور اس 18 سالہ نوجوان نے اپنی شاندار سپن بائولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلائیو لائیڈ کو آئوٹ کردیا۔ پاکستانی ٹیم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کیونکہ انہیں فتح نظر آرہی تھی۔ پھر ایک موقع ایسا آیاکہ ویسٹ انڈیز کے 9 کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ اب آخری وکٹ رہ گئی تھی۔ ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر ڈیرک مرے اور فاسٹ بائولر اینڈی رابرٹس کریز پر موجود تھے۔ کپتان ماجد خان ایک بڑی غلطی کر چکے تھے۔ انہوںنے اپنے تمام تیز بائولرز سے اوورز کرا لئے تھے ۔ اس وقت ویسٹ انڈیز کو جیت کیلئے 63 رنز کی ضرورت تھی۔ اور یہ بات یقین سے کہی جارہی تھی کہ دونوں کھلاڑیوں کے لیے اتنے رنز بنانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ادھر ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیولائیڈ میدان چھوڑ کر کہیں اور نکل گئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کی ٹیم میچ ہار چکی ہے۔ اس وقت وہ مایوسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ڈیرک مرے اور اینڈی رابرٹس نے سنگلز لینے کی حکمت عملی اپنائی۔ وہ آہستہ آہستہ سکورمیں اضافہ کرتے چلے گئے۔ اس موقع پر پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ بھی ناقص رہی۔ کم از کم دو یقینی رن آئوٹ کے مواقع ضائع کئے گئے۔ اس کے علاوہ گرائونڈ فیلڈنگ تک غیر معیاری رہی۔ پھر وہ ہوا جو کوئی بھی شخص سوچ نہیں سکتا تھا۔ ڈیرک مرے اور اینڈی رابرٹس نے 63 رنز بناکر فتح اپنے نام کر لی۔ پاکستانی کرکٹ شائقین کے ارمانوں کا خون ہو گیا۔ آج بھی اس ٹیم کا کوئی کھلاڑی جب اس میچ کو یاد کرتا ہے تو وہ شدید غم اور افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ایک جیتا ہوا میچ کیسے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اس میچ کی شکست نے ویسٹ انڈیز کے حوصلے بلند کردیئے اور اس نے فائنل میں جا کر آسٹریلیا کو ہرا دیا اور ورلڈ کپ اپنے نام کر لیا۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب کلائیو لائیڈ کو یہ اطلاع دی گئی کہ ان کی ٹیم میچ جیت گئی ہے تو انہیں یقین نہ آیا۔ وہ بھاگم بھاگ سٹیڈیم پہنچے یہاں ان کی ٹیم کے کھلاڑی دیوانہ وار رقص کر رہے تھے۔ آج بھی کلائیولائیڈ اس میچ کو یاد کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے جیتا ہوا میچ ہماری جھولی میں ڈال دیا۔ ماجد خان پر شدید تنقید کی گئی کہ آخر انہوں نے اپنے فاسٹ بائولرز کو پہلے ہی استعمال کیوں کر لیا۔ کم ازکم ان کے کچھ اوورز تو بچائے رکھتے ۔ بہر حال کچھ تو غلطیاں کی جاتی ہیں اور دوسرے مقدرکابھی اس میں بڑاہاتھ ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ جیتی ہوئی بازی ہار جاتے ہیں اور بعض دفعہ آپ ہارتے ہارتے جیت جاتے ہیں اس حقیقت سے تو بہرحال کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسانی زندگی کے ہر معاملے میں قسمت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے لیکن یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ سرفراز نواز اس میچ کا تذکرہ کرتے ہوئے اداس ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بائولرز نے اتنی محنت سے بائولنگ کی کہ ویسٹ انڈیز کے مانے ہوئے کھلاڑیوں کے اوسان خطا ہو گئے ہم یہ میچ جیت چکے تھے لیکن نجانے پھر کیا ہوا کہ اس جیت کو وہ چھین کر لے گئے۔ ورلڈ کرکٹ کی تاریخ میں یقینا اور بھی میچ ہوں گے جو ناقابل فراموش ہیں لیکن اس میچ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس زمانے کے پاکستانی کھلاڑیوں کے دلوں میں اس میچ کی تلخ یادیں اب تک باقی ہیں۔ لیکن اب سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ٭…٭…٭