چٹانوں پر تصاویر بنانے کا فن




ڈاکٹر محمد اقبال ہما
رائے کوٹ پل کے لئے خوش قسمتی سے ہوٹل کے بالکل سامنے سے ہمیں ناٹکو کی بس مل گئی اور پونے آٹھ بجے ہم نے چلّاس کو الوداع کہا۔ چند لمحے بعد ہماری بس چلّا س کی پولیس چوکی اور بتو گاہ نالے کے پاس سے گزری، تو مجھے وہ راستہ نظر آیا جو چلّا س کے مشہور و معروف پیٹر و گلائف تک جاتا ہے۔ پچھلے سفر میں مَیں ان کی زیارت کر چکا تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے کئی چٹانوں پر پیٹرو گلائف کے نمونے موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر شکار اور جنگ کے مناظردکھائے گئے ہیں اور مہاتما بدھ کی شبیہ کو بھی جگہ جگہ کندہ کیا گیا ہے۔ پیٹرو گلائف چٹانوں پر تصاویر بنانے کے فن کو کہتے ہیں اور پاکستان میں پیٹرو گلائف کا خاصا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ خود چلّاس میں ایک اور بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جو مشرق میں تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ پیٹروگلائف کو لوگ عموماً سرسری نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں ، لیکن ان پیٹر و گلائف میں زمانہ قدیم کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کا بہت بڑا حصہ پوشیدہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں کچھ نمونے ایک صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں جب ایرانی خانہ بدوش سائی تھینز یہاں سے گزرے۔ اس وقت انسان اپنے جذبات کا اظہار تحریر کی بجائے تصاویر کے ذریعے کرتا تھا۔ پارتھینز دور کا بھی قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے، لیکن چلّاس کے زیادہ تر پیٹرو گلائف بعد میں آنے والے بدھِسٹ دور سے تعلّق رکھتے ہیں اور مہاتما بدھ کے پیروکاروں کی کاوش کا نتیجہ ہیں جو تجارت یا تبلیغ کی غرض سے چین جانے کے لئے ان علاقوں سے گزرتے تھے اور چٹانوں پر کندہ کاری کر کے اور بدھ کی شبیہ ابھار کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ پیٹرو گلائف انسانی تاریخ کے پوشیدہ گوشوں کو کیسے بے نقاب کرتے ہیں ؟ یا کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں ؟اس کا اندازہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ہسٹری کے ریٹائرڈ پروفیسر بیری فل کے ایک مقالے سے لگایا جا سکتا ہے جس نے اَسّی کی دہائی میں تاریخ کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ پروفیسر بیری نے ۱۹۸۳ء میں انکشاف کیا کہ اس نے امریکہ کے علاقے ویسٹ ورجینیا میں موجود پیٹرو گلائف کی تصویری زبان کو ڈی کوڈ کر لیا ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ دراصل حضرت عیسیٰ ؑکی سوانح حیات ہے جو آئرش رسم الحظ میں چھٹی صدی عیسوی میں لکھی گئی، اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آئرش، آئی بیرین،مصری اور لبنانی سیاح ڈھائی ہزار سال پہلے نہ صرف امریکہ دریافت کر چکے تھے بلکہ حضرت عیسیٰؑ کا پیغام بھی ان علاقوں تک پہنچا چکے تھے۔ پروفیسر بیری کے اِس دعوے نے امریکہ کی موجود ہ تاریخ کو مشکوک بنا دیا۔ امریکہ کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ ماہرینِ لسانیات اور ماہرینِ ارضیات نے پروفیسر بیری کے دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا ورنہ امریکہ آج طالبان کو تلاش کرنے کے بجائے اپنی مشکوک تاریخ کے گم شدہ اوراق تلاش کر رہا ہوتا۔ بس میں ہماری سیٹیں بالکل پیچھے تھیں اور ہمارے ساتھ ایک غیر ملکی سیاح بیٹھا تھا۔ ہیلو ہائے کے بعد میں نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا۔ ’’انگلش میں تو میر انام بہت آسان ہے۔۔۔ جارج۔ ‘‘ ’’اور مشکل کس زبان میں ہے؟‘‘ ’’جرمن میں۔ ‘‘ ’ آپ جرمن ہیں ؟‘‘ ’’میں آسٹرین ہوں۔ ‘‘ ’’جرمن زبان میں آپ کو کیا کہتے ہیں ؟‘‘ ’’گیارگے۔ ‘‘ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ ’’کیا؟‘‘ ’’گی۔۔۔۔۔ آر۔۔۔۔۔ گے۔ ‘‘ اس نے ٹھہر ٹھہر کر بتایا۔ گی۔ آر گے یا جارج آسٹریا سے تعلّق رکھنے والا جرنلسٹ تھا۔ اس سے مزید گفتگو ہوئی تو اس کی شخصیت نے حیران کر دیا۔ یہ دبلا پتلا اور طویل قامت شخص سینتالیس سال کا تھا اور تیسری مرتبہ پاکستان آیا تھا۔ وہ مجھ سے دو سال بڑا تھا لیکن دس سال چھوٹا لگتا تھا۔ اس کے بقول وہ انڈیا اور پاکستان کو چھان چکا تھا اور اس کا یہ دعویٰ اس لئے درست لگتا تھا کہ وہ برصغیر کی تاریخ سے مکمل طور پر واقف تھا۔ گاندھی،نہرو اور جناح ؒکے بارے میں وہ وسیع معلومات رکھتا تھا۔ اس کے خیال میں جناحؒ، گاندھی اور نہرو دونوں سے زیادہ قد آور سیاستدان تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ متاثر بھی تھا۔ دورانِ گفتگو میں نے اس سے پاکستانیوں کے بارے میں اس کی رائے پوچھی۔ اس نے کہا ’’پاکستان کے لوگ بہت عمدہ اور پیار کرنے والے ہیں۔ لیکن عالمی میڈیا آجکل پاکستانیوں کا بہت خوفناک اِمیج پیش کر رہا ہے۔ ‘‘ ٭…٭…٭