عورتوں کی امامت کا مسئلہ

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، ولید بن عبداللہ بن جمیع، عبدالرحمن بن خلاد، بنت عبداللہ بن نوجل، حضرت ام ورقہ نوفل سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب غزوئہ بدر میں تشریف لے گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی اپنے ساتھ جنگ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائیے وہاں میں بیماروں (زخمیوں) کی دیکھ بھال کروں گی۔ شاید اللہ تعالی مجھے بھی مرتبہ شہادت عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے ہی گھر میں رہو اللہ تعالی تمھیں شہادت کا مرتبہ عطا فرمائیں گے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد ان کا نام ہی شہید ہو گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں اس لیے انھوں نے اپنے گھر میں ایک موذن مقرر کرنے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک غلام اور ایک باندی کو مدبر کیا تھا (یعنی اپنے مرنے کے بعد آزادی کا وعدہ) ایک دن غلام اور باندی مل کر رات میں ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور بھاگ نکلے جب صبح ہوئی تو حضرت عمر نے فرمایا جس کو ان دونوں کا پتہ ہو یا جس نے ان کو کہیں دیکھا ہو وہ ان کو پکڑ لائے پس وہ لائے گئے اور ان کے لیے پھانسی کا حکم ہوا اور مدینہ میں پھانسی دیئے جانے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

حسن بن حماد، محمد بن فضیل، ولید بن جمیع، عبدالرحمن بن خلاد، حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے اسی طرح روایت ہے مگر پہلی حدیث مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے گھر ان سے ملنے جاتے تھے اور ان کے لیے ایک موذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اہل خانہ کی امامت کی اجازت دی تھی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ان کے موذن کو دیکھا وہ بہت بوڑھے تھے۔


سنن ابو داؤد