کانچ کی گڑیا!



رُخسانہ سحر
فرزانہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے میں نے اور تم نے آخری سیلفی بنائی۔ میں نے تم سے شکوہ کیا کہ تم نے کتاب کا نام’’ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے‘‘کیوں رکھا۔بندہ مشورہ ہی کرلیتا ہے۔ پھر جب میں کتا ب نہ ملنے پر میٹھا سا ناراض ہوئی تو کہنے لگی۔ یہ کتاب محبوب ظفر کو دے کر آتی ہوں پھر آپ کو کتاب دوں گی۔ اور تم نے اپنے میاں کو جو آخری میسیج کیا کہ میرے پاس ایک ہی کتاب ہے،رخسانہ کو دے دوں؟لیکن تم واپس ہی نہ آئی۔ میں تمھیں دیکھتی ہی رہ گئی اور تم نے شاید سوچ کر ہی نام رکھا تھا۔ ہجرت تم سے ایسی لپٹی کہ اس نے تمھیں مجھ تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ فرزانہ تم تو کتاب دینے چلی گئی اور میں دوستوں کے ساتھ تقریب کے ختم ہوتے ہی تصویریں بنانے لگی۔ سٹیج سے کچھ لوگوں نے گروپ فوٹو کے لیے اشارہ کیا لیکن اتنا زیادہ ہجوم دیکھ کر میری ہمت ہی نہ ہوئی اور ہم کافی ساری سہیلیاں وہیں کھڑی تصویریں بنواتیں رہیں۔ اچانک سے سٹیج کی طرف افراتفری اور شور شرابے کی آوازیں بلند ہوگئیں میں نے جب مڑ کر دیکھا تو ہر بندہ سٹیج کے اوپر سے نیچے جھکے کچھ دیکھ رہے ہیں۔ میری جیسے ہی سٹیج پر کھڑے وی آئی پی حضرات پر نظر پڑی تو انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا کہ کون گرا ہے۔وہ سب پچھلے دروازے سے چلے گئے۔ اس سے پہلے کہ میں سٹیج کی طرف بھاگتی مجھے محبوب ظفر نظر آئے۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ کوئی خاتون گری ہیں۔ تھوڑی دیر میں میرے بچوں نے آکر تصدیق کردی۔ماما، وہ فرزانہ آنٹی ہیں، میرے تو پائوں سے جیسے زمیں ہی نکل گئی۔میں کانپتی ٹانگوں سے تمھارے پیچھے بھاگی۔ بچارے کچھ کیمرہ مین لڑکوں نے تمہیں کس مشکل سے اس موت کی کھائی سے باہر نکالا۔ میں نے جب جھک کر دیکھا میں دنگ رہ گئی۔ 12 فٹ کی بلندی سے تم گریں اور ٹوٹ کر بکھر گئی۔ میں وہیں تمھارے خون کو دیکھ کر خون کے آنسو بہاتی تم تک پہنچی۔ لیکن ان جوانوں نے تمہیں باہر سیڑھیوں کے پاس لا چھوڑا۔ میں نے تمھارے کپڑے درست کئے،مجھے لگا تم نے کس بیچارگی سے میری طرف دیکھا ہو کہ تم تو ایک لمحہ بھی اپنا دوپٹہ سر سے سرکنے نہیں دیتی تھیں۔ آج تمہارے جسم میں اتنی طاقت نہیں کہ تم خود کو سنبھال سکو۔ تمھارے چہرے کو چھوا تو مجھے لگا جیسے کلی مرجھائے جارہی ہو۔ میں نے چیخ کر کہا کہ خدا کے لیے عورت کی تذلیل مت کرو،اسے کرسی پر بٹھائو، کرسی کو اٹھائو اور باہر تک لے جائو۔اسماعیل بھائی پاگلوں کی طرح تمہارے دونوں بچوں کی انگلیاں تھامے تمھارے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ ہائے،صد افسوس،باہر تو کوئی سرکاری ایمبولینس بھی نہ تھی۔ کوئی گاڑی نہ ملی۔ اللہ بھلا کرے موٹر وے پولیس کے ایک اہلکار اور لیڈی اہلکار کا، جنہوں نے انسانیت کے ناطے اپنی گاڑی پیش کردی۔ فرزانہ میری دوست، کوئی بڑے ادیب، دانشور اور صاحب اقتدار بھلا ہمارے ساتھ کیوں بھاگتے میری جان چھوٹے ادیبوں کو یہ لوگ گھاس کہاں ڈالتے ہیں۔لیکن تمھارے دو ننھے فرشتے تھے ناں۔ ہسپتال پہنچے تو تمہیں ایمرجنسی میں اسی وقت وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا۔ ہمارے پاس دعائوں کے اور بچا ہی کیا تھا۔ مجھے تمہاری معصوم سی پیاری پیاری باتیں یاد آنے لگیں۔ تم نے تو کل میرے گھر کھانے پر آنا تھا، تم نے کتاب دینے گھر آنے کا کہا تھا پھر تم کیسے وعدہ فراموش ہو سکتی ہو۔ فرزانہ بہت سے ہمدرد دوست ایسے بھی تھے جو تمھارے لیے دعائوں کی استدعا کررہے تھے، تم اکیلی نہیں تھی، ہم چند تمہارے ساتھ کھڑے تھے۔ اسی اثنا میں رخسانہ نازی بھی پہنچی،ہم گلے لگ کے بہت روئیں۔ جب اس نے بتایا کہ میں نے انعام الحق جاوید سے کہا کہ آپ کو کچھ کر نا چاہیے، آپ کو جانا چاہیے، تو وہ کہنے لگے کہ تم چلی جائو ناں، تم بھی تو امیر باپ کی بیٹی ہو۔ جب رخسانہ نازی نے پوچھا کہ آپ نے اس قاتل کھائی کو بند کیوں نہیں کروایا؟تو انہوں نے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں تو پہلے بھی پانچ حادثے ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم کیا کریں کوئی بند ہی نہیں کرواتا۔ کیسی بے حسی ہے۔ اتنے میں دیکھا کہ تمہیں انتہائی نگہداشت کے کمرے میں منتقل کیا ہے تو میں اور نازی تم تک بھاگ کر پہنچیں۔ دوست تم اپنے بچوں کو دیکھنا چاہتی تھیں، تمہاری آنکھیں نیم وا تھیں، میں نے تمھاری تصویر بنائی تو تمھارے ہاتھوں میں جنبش ہوئی تمہارا ہاتھ میری جانب اٹھا اور تمھاری سانسیں جیسے بہت تیزی سے چلیں اور گلے سے چند آخری گھٹی گھٹی آوازوں کے بعد تم ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔ ڈاکٹرز نے تو ہماری تسلی کے لیے تمہیں انتہائی نگہداشت یونٹ میں شفٹ کیا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہوگیا تھا تم ہمیشہ کے لیے ہمیں داغ مفارفت دے گئی ہو۔لیکن میںڈاکٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ انھوں نے اچھا کیا جو تمہیں ایک رات اور ایک دن کے لیے مصنوعی سانسوں پر ہی سہی کچھ دیر زندہ تو رکھا، ہمارا ایک دم حوصلہ تو نہیں توڑا۔ بھلا ہو ہمارے بے حس انتظامیہ کا جن کا کتنے ہی گھنٹوں نہ آنا، کوئی خبر نہ لینا اور خاموشی ایسی اختیار کی کہ جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔ ہمارے حوصلوں کوپست کر ڈالا۔ فرزانہ میری جان تم اگر اجازت دو تو کیا میں یہاں چند سوالات رکھ سکتی ہوں: ارباب اختیار اس بات کا انتظار کیو ں کرتے رہے کہ جب تک انہیں کنفرم نہیں ہوگیا کہ تم اب ہم میں نہیں رہی تب وہ آئے؟ جب قلم کار برادری نے بہت سا پریشر ڈالا تب کہیں جاکر ان کی ٹانگوں میں جنبش پیدا ہوئی وہ چند قدم چل کرہسپتال آکر ایسا کیوں جتا رہے تھے، جیسا انہوں نے یہاں آکر ہم پر کوئی احسان کر ڈالا ہو؟ ڈاکٹر ناہید نے جب ایک مشیرسے سوال کیا کہ آپ کو پتہ تھا کہ یہ اسی جگہ پر چھٹا حادثہ ہے،تو آپ نے اْس کا سدباب کیوں نہ کیا۔ تو انہوں نے کہا’’مجھے تو کچھ پتہ نہیں‘‘ فرحین چودھری نے جب دکھ سے بھرے لہجے میں انعام الحق جاوید سے سوالات کئے تو انہوں نے بھی کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور ناراض ہو کر ایک طرف ہوگئے۔ فرزانہ میری جان ہم اہل قلم برادری نے ہسپتال کے بلوں کے لیے آپس میں اتنے پیسے تو جمع کر ہی لیتے پھر یہ پیسوں کے زعم پر آخر میں سب کو کیسے خریدنے پہنچ گئے؟ فرزانہ کیا تم اللہ میاں سے جا کر یہ پوچھو گی تمہیں کس گناہ کی پاداش میں بے گناہ بے یارومدد گار چھوڑا گیا؟ کاش فرزانہ تم بھی کسی بڑے باپ کی بیٹی ہوتی یا پھر انہی کی لابی کا کوئی حصہ ہوتی، تو کیا مجال تھی تمھارے لیے اتنے بڑے کتاب میلے میں کوئی ایمبولینس نہ ہوتی؟ تم یوں تڑپ تڑپ کر نہ مرتی اگر تمھارے لنکس بھی وزیروں،مشیروں سے ہوتے؟ فرزانہ خدا کے لیے اپنے بچوں کی فکر نہ کرنا اہل قلم برادری تْمھارے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ وہ تو کانچ کی گڑیا تھی، ہاتھوں سے یوں چھوٹ گئی گرتے ہی وہ ٹوٹ گئی