افلاطون کی نظر میں حکومت کی اقسام



افلاطون نے فرد اور ریاست، دونوں کو اہم قرار دیا ہے۔ دونوں کو وہ ایک دوسرے کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ اچھے شہری ہی اچھی حکومت بناتے ہیں۔ جو عناصر کسی فرد کی تباہی کا باعث بنتے ہیں وہی اسباب ریاستوں کے زوال کی وجہ بنتے ہیں۔ افلاطون نے طریقِ حکومت کی پانچ اقسام بتلائی ہیں۔ 1۔ اشرافیہ حکومت، 2۔ سرداروں کی حکومت، 3۔ دولت مندوں کی حکومت، 4۔ شخصی یا ڈکٹیٹر شپ، 5۔ جمہوریت اشرافیہ وہ طرز حکومت ہے جسے چند معزز لوگ مل کر چلاتے ہیں۔ یہ سب حکومت کے اہل ہوتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں خرابی کی وجہ سے انہیں زوال آ جاتا ہے۔ سرداری حکومت میں حکمران کسی صاحبِ عزت شخص کا بیٹا ہو گا۔ عقل کی بجائے وہ جذبات کا غلام ہو گا۔ موسیقی اور تقریروں سے لگائو رکھے گا۔ ایسا حکمران عموماً کسی بہادر باپ اور فلسفی ذہن کی اولاد ہوتا ہے لیکن عام طور پر اسے یہ گلہ ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے دولت نہیں کمائی۔ چنانچہ ابتدا میں تو وہ دولت سے نفرت کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ دولت کا شیدائی ہو جاتا ہے اور ان لوگوں کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے جو اس کے باپ سے مختلف ہوتے ہیں۔ دولت مندوں کی حکومت کو سقراط اولیگارشی کا نام دیتا ہے۔ یہ وہ طرز حکومت ہے جس میں دولت مند طبقہ اپنی دولت کے بل بوتے پر حکومت کرتا ہے۔ نجی ملکیت کارجحان بڑھنے لگتا ہے ۔ دولت مند طبقہ دن بدن امیر ترین ہوتا جاتا ہے۔ دولت میں اضافہ کی دوڑ میں ہر حکمران ایک دوسرے سے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد حکومت کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ یہ طبقہ انصاف و عدل کی تعریف بھول جاتا ہے اور ریاست کا سارا نظام چند امیروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ جمہوریت میں ہر کوئی آزادی کی فضا میں سانس لیتا ہے۔ ہر کوئی اس کی تعریف کرتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے عورت کسی عورت کے خوبصورت فراک کی تعریف کرے۔ سقراط کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں کوئی کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ غلطی ہو جائے تو ہر کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔ لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے اور سب مل کر حصہ بانٹتے ہیں۔ سقراط اپنے دوستوں سے کہتا ہے میرے نزدیک اشرافیہ سب سے بہتر طرز حکومت ہے اور سب سے بدتر ڈکٹیٹر شپ۔ وہ دونوں طرز حکومت کی اچھائیاں اور برائیاں تاریخی امتیاز سے ثابت کرتا ہے چنانچہ وہ مثالی ریاست کے لیے اشرافیہ طرز حکومت یعنی ارسٹوکریسی کو لازمی قرار دیتا ہے۔ ( اقتباس: علم و دانش کے معمار از احمد عقیل روبی ) ٭…٭…٭