امریکہ میں موت کی سزائیں




رحمیٰ فیصل

آج سے 50سال قبل1967ء میں امریکی سپریم کورٹ نے موت کی سزائوں کو بحال کیا تھا اور مجرموں کو سزائے موت دی جانے لگی تھی ۔ 1990ء میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو کر 315پر پہنچ گئی۔ پھر اس کے بعد کمی کا رجحان پیدا ہوا۔چند سالوں سے امریکہ میں سزائے موت کا طریق کا ر طے نہ ہونے پراس سزا پر پابندی عائد کی گئی تھی۔لیکن سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزائوں کی اجازت دے دی ہے۔ اس لئے 2016ء میں 2015ء کے مقابلے میں 37فیصد کم مجرموں کوسزائے موت دی گئی تھی۔ 2016ء میں پھانسی کی سزائوں کی اجازت ملنے کے بعد صرف 30مجرموں کو پھانسی دی گئی۔جارجیا میں بلوری فرانسی اور ابلامہ میں 20پھانسیاں دی گئی۔ امریکہ میں یہ سزا کم ہوتی جارہی ہے۔جس کی کئی وجوہات ہیں ۔ 2016ء میں جارجیا نے سزائے موت نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ٹیکساس میں بھی اسی قسم کی رائے پیدا ہوئی اور صرف 4افراد کو 2016ء میں سزا دی گئیں۔ کچھ ریاستوں نے ان ادویات پر پابندی لگا دی جو اس سزا کے لئے استعمال ہوتی تھیں جس سے سزائے موت خود بہ خود رک گئی۔ پھر بعض فارما سوٹیکل کمپنیوں نے اپنی دوا کو سزائے موت کے لیے استعمال ہونے سے روک دیا۔ یورپی یونین نے بھی 2011ء میں امریکہ کو سزائے موت کے قیدیوں کو دی جانے والی ادویات پر پابندی لگا دی۔ جس سے سزائے موت پر عملدرآمد رک گیا۔ 2015ء میں نبراسکا نے بھی سزائے موت پر پابندی کیخلاف ووٹ دے دیا۔ پہلے جارجیا نے سزائے موت ختم کرنے کے بعد اس کی رفتار تیز کرنے کی اجازت دے دی۔ اوکلا ہاما نے بھی سزائے موت کیلئے کچھ قانونی تبدیلیاں کیں۔ ارقم سول کی حکومت نے بھی سزائے موت کے قیدیوں کو نئی ادویات دینے کا فیصلہ کیا۔ ارکنسا س میں قیدیوں کو دئیے جانے والے جان لیوا انجکشن عدالت عالیہ نے غیر قانونی قرار دے دئیے تھے۔ عدالت نے وکو رونیم برومائٹ نامی انجکشن کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جس سے سزائے موت ر ک گئی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ ارگن سو میں اب سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو سزائے موت دی جائے گی۔ امریکہ میں سزائے موت کے بارے میں کالوں اور گوروں کی رائے مختلف ہے۔ خواتین اور نوجوان بھی اس بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک سروے ہوا جس میں 49فیصد نے سزائے موت کی حمایت اور 42نے اس کی مخالفت کی۔ سب سے زیادہ حامی گورے مرد تھے۔55فیصد مردوں نے حمایت جبکہ 41فیصد خواتین نے حمایت کی۔ گوروں میں حمایت کا تناسب مردوں کے تناسب سے بھی زیادہ تھا۔ 57فیصد گورے ، 29فیصد سیاہ فام اور 26فیصد ہسپانوی سزائے موت کے حامی ہیں۔ اس طرح سیاہ فام باشندوں نے سزائے موت کو یکسر مسترد کر دیا جبکہ امریکہ میں پھر بھی یہ نافذ ہے۔ امریکہ میں 65سال سے زائد عمر کے افراد میں سزائے موت مقبول ہے۔ 65سال کے 50فیصد بوڑھے سزائے موت کے حامی ہیں جبکہ 18سے 29سال کے 42فیصد لوگ سزائے موت کے حق میں ہیں۔ کالج گریڈ کے 51فیصد طلباء نے سزائے موت کو مسترد کر دیا لیکن اس کے باوجود امریکہ میں سزائے موت ایک خوفناک سزا کے طور پر آج بھی مؤثر ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس سزا کے حوالے سے صرف پاکستان کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ٭…٭…٭