ہڑپہ کی تہذیب


شیخ نوید اسلم
وادیٔ سندھ میں ہڑپہ کی پختہ تہذیب نے ایک نئی شکل اختیار کی اور چھوٹے قصبے کا ایک نیا دَور شروع ہوا جس میں پتھر اور دھات دونوں کے اوزار استعمال ہوتے تھے اور جس کا وسطی ہند میں قبل مسیح دوسرے ہزار سالہ قرن کی دیہی زندگی کے ساتھ تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ اس ہزار سالہ قرن میں کسی وقت ایک ارتقا یافتہ اور انفرادی خصوصیات کی حامل تابنے کی صنعت ہونے کے ثبوت ملے ہیں‘ جس کا مرکز گنگا کے میدانوں میں تھا‘ لیکن ابھی یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ یہ صنعت کس ماحول میں پروان چڑھی۔ اتنا ہی مبہم مگر وسیع تر اہمیت کا حامل اس ترقی پذیر شہری زندگی کا آغازہے جو اسی خطے میں قبل مسیح پہلے ہزار سالہ قرن کے اوّلین نصف حصے میں ظہور پذیر ہوئی۔ وہاں ہندوستانی بہادرانہ قصوں کی سرزمین پر‘ تہذیبِ ہند کا دوسرا دَور شروع ہوا اور پنپا۔ اسے گنگا کی تہذیب کہنا معقول ہی ہوگا۔ اس دَور سے لوہے کے استعمال کی ابتداء اور شمالی میدانوں میں مسلسل تہذیب کا آغاز ہوا۔ لگ بھگ 500 قبل مسیح تک اس کی خصوصی صنعت بہت انفرادی انداز کے سلیٹی رنگ کیے ہوئے برتن تھے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے دوسرے نصف حصے میں فارس کے اکائمینی بادشاہوں کی سلطنت کی توسیع کے ساتھ نئے تہذیبی تاثرات برصغیر کے شمال مغربی سرے پر پہنچے۔ ان سے متذکرہ بالا شہری ارتقا کے اہم عمل کو قوت اور فروغ ملا۔ سلطنتِ فارس نے سرحدی علاقوں میں جو بستیاں بسائیں ان سے آس پاس کے تجارتی راستوں کا تحفظ ہوا۔ ان شاہراہوں کے ساتھ ساتھ واقع شہر کابل کے پاس بیگرام‘ پشاور کے پاس چارسدہ اور راولپنڈی کے پاس ٹیکسلا خوشحال ہوئے اور نیا سامان استعمال میں آنے لگا جس میں سکّے بھی شامل تھے۔ ان برکات کے دوآب کے شہروں تک پہنچنے میں‘ جو اب خوب ترقی کررہے تھے‘ زیادہ دیر نہ لگی۔ یہاں پچھلے دور میں عام پائی جانے والی کچی اینٹوں کی تعمیروں کی جگہ پختہ اینٹوں کی خاصی بڑی عمارتیں بننے لگیں اور شاید اتفاقیہ طور پر لوہے کے سامان پر پائی جانے والی چمک کی نقل میں‘ شمالی سیاہ پالش والے مٹی کے برتنوں کی مشہور صنعت وجود میں آئی۔ ان برتنوں پر بھی فولاد جیسی چمک ہوتی تھی۔ یہ مستقبل کے ماہرینِ آثارِقدیمہ کے لیے ایک پیغمبرانہ امداد کی مانند تھے۔ ابتداء میں ان نئے طریقوں اور تکنیکوں سے گنگا کے عظیم میدانوں میں کسی طرح کا انقلاب ظہور میں نہیں آیا بلکہ ان سے ان ہی تہذیبی رجحانوں کو تقویت ملی اور ان کی توسیع ہوئی جو وہاں پہلے سے عمل پذیر تھے۔ 500 قبل مسیح اور خاص کر 300 قبل مسیح کے بعد کا عہد اقتصادی اور تمدنی آسودگی کا دَور تھا۔ یہ رجحان موریہ سلطنت کے وقت معراج پر پہنچا جو سکندراعظم کے گزرنے کے بعد‘ سلطنتِ فارس کی ’’جانشین ریاست‘‘ کے بطور تھی۔ موریوں نے کائمینی سلطنت کے سیاسی اور تمدنی نظریوں کو وراثت میں پایا اور انہیں نئے روپ میں ڈھالا اور فارس کے بیروزگار اہلِ فن سے اچھی طرح استفادہ کیا۔ اس طرزِ عمل کی ایک قابلِ ذکر مثال فنِ تعمیر کے فارسی نمونوں کی درآمد تھی جن کا اثر قرونِ وسطیٰ تک ہند کے مذہبی طرزِتعمیر پر پڑتا رہا۔ عہد تین کو عہد دو کا ایک ذیلی عہد کہنا بہتر ہوگا۔ یہ گنگا کی پختگی پذیر تہذیب کی وسطی ہند کی جانب جنوبی توسیع تھی ‘خاص کر وادیٔ نربدا کی طرف‘ جس کے ذریعے مغربی ساحل کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کی گئی۔ یہ توسیع قبل مسیح پانچویں صدی میں یا اس سے پیشتر ہوئی۔ شاید یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ توسیع اس ذہنی اور روحانی عروج کا مادی پہلو تھی جو گنگا کے میدانوں سے ہی نکلے۔ بودھ اور جین مذاہب کے ارتقا کی شکل میں نمودار ہوا۔ عہد چار زیادہ ٹھوس نوعیّت کا تھا۔ اگر موجودہ شہادت کا صحیح مطلب سمجھا گیا ہے تو یہ دراصل تیسری صدی قبل مسیح کی ابتداء میں موریہ سلطنت کی گنگا سے جنوب کی طرف توسیع کا ایک نتیجہ تھا۔ پتھر اور دھات دونوں کا استعمال کرنے والے تمدنوں کا ایک مجموعے پر‘ جس میں چھوٹے پتھروں کے اوزاروں کے چلن کا قوی رجحان تھا‘ گنگا کا مکمل طور پر ترقی یافتہ لوہے کا عہد چھا گیا جس کی نمائندگی اتنی مختصر مدت بعد والے لوگ کررہے تھے کہ وہ مقامی روایات سے متاثر ہوگئے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے شمالی تہذیب کے آہنی نظم و ضبط کو (واقعتاً) ان پر حاوی کردیا۔ وقتی طور پر یہ پیش قدمی شمالی میسور میں رک گئی لیکن بعد میں جزیرہ نما کے جنوبی سرے تک پہنچ گئی۔ پہلی صدی عیسوی تک یہ تہذیب وہاں مکمل طور پر قائم ہوچکی تھی اور ساتھ ہی دوردراز تک ترقی افزا غیرملکی رابطے قائم ہوچکے تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں یعنی تیسری صدی قبل مسیح کے قریب اس تہذیب کا مشرقی گھاٹوں کے ساتھ ساتھ ساحلی میدانوں میں نیچے کی طرف پھیلائو بھی شروع ہوا۔ 264 قبل مسیح میں کلنگوں پر اشوک کی مشہور فتح اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ ہے۔ جنوب میں دریائے کرشنا کے کنارے واقع مشہور مقام امرا وتی تک گنگا کی شمالی سیاہ پالش والے برتنوں کی صنعت جا پہنچی۔ شمال سے جنوب کی طرف دھیرے دھیرے ہونے والی توسیع کا یہ خاکہ معقول بھی ہے اور اس میں یکجہتی بھی ہے۔ اس کے بعد سے ہند کی تہذیب مناسب اور بنیادی طور پر تاریخ دان کے مطالعے کا موضوع بن جاتی ہے۔ علمِ آثارِقدیمہ کے ماہرین کا رول اب کم ہوجاتا ہے‘ اگرچہ اس کی افادیت موجود رہتی ہے۔