کیمبرج کے پانچ جاسوس


روشن اعجاز
کل بھوشن یادیو کی وجہ سے آج کل ہمارے ہاں جاسوسی اور جاسوس خاص طور پر میڈیا پرسنز سے لے کر عام آدمی تک کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر جاسوسوں کو جو اہمیت سرد جنگ کے زمانے میں حاصل ہوئی وہ نہ تو اس پہلے اور نہ ہی کبھی بعد میں مل سکی۔ سرد جنگ کے دوران جاسوسی امور سے لوگوں کی دلچسپی اس حد تک تھی کہ اس وقت جیمز بانڈ کے کردار پر مبنی فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ اس دور میں باہم متحارب سابق سوویت یونین اور امریکہ نے تقریباً ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگوں کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ایسے لوگوں میں سے کیمبرج فائیو گروپ کے لوگوں نے خاص شہرت حاصل کی۔ کیمبرج فائیو ، کیمبرج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل پانچ سابق طالب علموں کا ایسا گروپ تھا جس نے جنگ عظیم دوئم کے دوران برطانیہ کی خفیہ معلومات سوویت یونین کو فراہم کیں۔ اس گروپ کے کچھ لوگوں کی شناخت 1950ء کی دہائی کے اوائل میں عیاں ہوئی۔ ان میں سے گروپ کے چار لوگ کم فلبی، ڈونلڈ ڈارٹ میکلین، گے برگس اور انتھونی بلنٹ اس وقت اپنے اصل نام کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ ان لوگوں کے سابق سوویت یونین کے ساتھ رابطے اس وقت استوار ہوئے جب یہ سب کیمبرج میں زیر تعلیم تھے۔ اس گروپ سے باہر ایک شخص جان ویسل جو ماسکو میں موجود برطانوی سفارت خانے میں بحیثیت نیوی اتاشی تعینات تھا کو 1955ء میں سوویت یونین کے لیے جاسوسی کے الزام میں 18 برس قید کی سزا سنائی گئی۔اس کی سزا کے ایک برس بعد 1956ء میں کیمبرج فائیو گروپ کے گے برگس اور میکلین سوویت یونین میں اعلانیہ منظر عام پر آئے ۔ یہ دونوں حضرات 1951ء میں برطانیہ سے غائب ہوئے تھے۔ سابق سوویت یونین نے ان دونوں کو منظر عام پر لانے کے ساتھ یہ پراپیگنڈہ بھی کیا کہ یہ لوگ مغربی یورپ میں حاصل نام نہاد آسودگی کے مقابلے ماسکو میں زیادہ مطمئن اورمحفوظ ہیں ۔ سوویت یونین کے ترجمانوں کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں بخوشی برطانیہ سے ماسکو میں مقیم ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ اس دور میں جاسوس کس قدر ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ اپنا کام کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انتھونی بلنٹ کو 1956ء میں نائٹ ہڈ کا خطاب عطا کرنے کے ساتھ ہی ملکہ برطانیہ کے فن کے نمونوں کے ذخیرہ کا نگران بھی مقرر کیا گیا۔ مگر اسے یہ ذمہ داری سونپے جانے کے ایک برس بعد ہی اعلان ہو گیا کہ بلنٹ بھی کیمبرج فائیو گروپ کا حصہ ہے۔ کیمبرج فائیو گروپ کا اہم رکن کم فلبی بھی 1963ء میں برطانیہ سے بھاگ کر سوویت یونین پہنچ گیا۔ فلبی کو کیمبرج فائیو کا لیڈر بھی کہا جاتا ہے۔ کم فلبی کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے والا یہ شخص برطانوی سراغ رساںادارے ایم آئی 6 میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ سوویت یونین فرار سے بہت عرصہ پہلے 1956 میں اسے اس کے عہدے سے تو ہٹا دیا گیا تھا مگر اس پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا تھا۔ سرد جنگ کے دوران برطانیہ میں سوویت جاسوس اس حد تک سرگرم تھے کہ 1971ء میں 105 سوویت سفارتی اہلکاروں کو جاسوسی کے الزام کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ کیمبرج فائیو گروپ کے پانچویں رکن کی حیثیت سے جان کیرن کراس کا نام کافی عرصہ بعد1990ء میں سامنے آیا۔ 1964ء میں انتھونی بلنٹ نے جاسوسی میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کیرن کراس کے کیمبرج فائیو کا حصہ ہونے کا اشارہ کیا تھا۔ کیرن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کیمبرج فائیو کے ہر عمل کا حصہ نہیں تھا بلکہ اس کی شمولیت بلنٹ کے پیروکار ی حیثیت سے تھی۔ ٭…٭…٭