Dr Danish (04-01-2017),intelligent086 (04-02-2017)
آدمی کے جھوٹ بولنے کی درج ذیل وجوہات ہوتی ہیں۔
ناکافی Inadequate ہونے کا احساس
ذمہ داری سے بچنے کی خواہش
مصنف کا خیال ہے کہ جب کوئی انسان اپنے آپ کو کسی خاص صورتحال میں ناکافی محسوس کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس صورتحال میں (کافی) بنانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ ہر انسان بیک وقت کئی اقسام کے ماحول اور صورتحال میں زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر
علمی صورتحال
معاشی صورتحال
سماجی صورتحال
سماجی مرتبے کی صورتحال
خاندانی صورتحال
جسمانی خصوصیات کی صورتحال وغیرہ
ان صورتوں میں اعلیٰ اور ادنیٰ کے کچھ معاشرتی پیمانے مقرر ہوتے ہیں۔ (یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہےکہ آج کے معاشروں میں یہ پیمانے حد درجہ جعلی ہوتے ہیں) ہر انسان ان صورتوں میں سے کسی خاص صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے شخص یا اشخاص کے سامنے اپنے آپ کو اسی صورت کے حوالے سے ناکافی محسوس کرتا ہے۔ ناکافی ہونے کا احساس اس کے اندر احساس کمتری پیدا کرتا ہے۔ اکثر لوگ اپنے ناکافی پن کو دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جس کے باعث وہ جھوٹ کے ذریعے اپنے آپ کو کافی ثابت کرتے ہیں۔
فروغ میں معاشرہ کا کردار]
جھوٹ کے معاشرے پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے وہ مختلف پہلو اجاگر کرتے ہیں جن میں سے ایک پہلو پر وہ لکھتے ہیں کہ جھوٹ کا ایک منفی گوشہ یہ سامنے آیا ہے کہ معاشرے میں نظام مراتب کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یعنی اس بیماری کا شکار معاشرہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی ہرشخص کو ہر صلاحیت دے کر پیدا نہیں کرتا لیکن ہر شخص کو ایک خاص صلاحیت یا Uniqueness دے کر پیدا کرتا ہے۔ کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو قدرت کئی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتی ہے۔ انسانوں کی انہیں صلاحیتوں کے اعتبارسے معاشرے میں ایک خاص نظام ِ مراتب وجود میں آتا ہے۔ اس نظام میں کوئی شخص غیر اہم نہیں ہوتا البتہ ایک شخص دوسرے شخص سے بعض خصائص کی بناء پر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس نظام میں روحانی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کا مقام سب سے بلند ہوتا ہے۔ اس کے بعد تخلیقی کام کرنے والوں کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد ہنر مندوں اور پھر جسمانی محنت کرنے والوں کی باری آتی ہے۔
ان افراد کے مرتبے تو ایک دوسرے سےجدا ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ ان سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ضرورت انہیں مستقل اہم بنائے رکھتی ہے۔
جھوٹ کا رجحان کم رکھنے والے معاشرے]
حفظ مراتب کا خیال رکھنے والے معاشروں کے متعلق مصنف کا خیال ہے کہ ایسے نظام مراتب کا تصور رکھنے والے اور اس تصور پر یقین رکھنے والے معاشروں میں حسد کا مادہ اور اس ھوالے سے جھوٹ کا رجحان بہت کم ہوتا ہے۔ کیونکہ ان معاشروں میں ہر مرتبے پر فائز شخص کو اپنی اہلیت و اہمیت کا اندازا ہوتا ہے۔ جس کے باعث وہ، (وہ) بننے کی کوشش نہیں کرتا جو وہ نہیں ہوتا۔ اسی لئے وہ ناکافی پن احساس کا شکار نہیں ہوتا جو ہمارے معاشرے میں اور دنیا کے دیگر معاشروں میں بہت عام ہوچکا ہے۔
جھوٹ، ذمہ داری سے بچنے کا رجحان]
جھوٹ بولنے یا دروغ گوئی سے کام لینے والوں کا تجزیہ کرتئ ہوئے شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے کا دوسرا سبب ذمہ داری سے بچنے کا رجحان ہے۔ اگرچہ کہ ذمہ داری سے بچنے کا رجحان بھی انسان کی پست اخلاقی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن انسان جب اس سے ایک قدم بڑھ جاتا ہے تو ہم اسے پست اخلاقی کی انتہاء قرار دے سکتے ہیں۔ یہ اگلا قدم ہے کہ اپنی ذمہ داری یا اس کے نتائج کو دوسروں پر منتقل کرنا۔ اس صورتحال کے مظاہر عام زندگی سے لے کر قومی زندگی کے اہم ترین معاملات تک آسانی سے دیکھ جا سکتے ہیں۔
مصنف اپنے معاشرے کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پورے اخلاقی نظام سے واقف لوگ اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہیں چونکہ یہ جواب طلب کرسکتے ہیں اس لئے جواب دینے کے مکلف بھی ہیں، مصنف اپنی دلیل میں ایک تلخ مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان دوٹکڑے ہوگیا کوئی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار بھٹو صاحب ہیں، بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس کے ذمہ دار نہیں۔ اس کی ذمہ دار عوامی لیگ ہے، عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے مسلسل شکایتیں تھیں۔ کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔
اس صورتحال پر سخت الفاظ میں تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جب قوم کے بااثر اور حکمران طبقہ جھوٹ بولنے لگیں تو قومیں بڑے بڑے سانحوں سے دوچار ہوتی ہیں مگر اس قدر عظیم سانحے بھی ان کے حکمرانوں کو سچ بولنے پر مجبور نہیں کرسکتے چونکہ بگاڑ کافی حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے۔ اپنے وطن کے دولخت ہونے کو وہ ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اتنے بڑے سانحے پر بھی حکمرانوں کو اتنا تاسف بھی نہیں ہے جتنا کہ ایک گلاس کے ٹوٹنے پر ہوا کرتا ہے چونکہ بقول مصنف قوم جھوٹی ہے اور اس کے حکمران جھوٹوں سردار۔۔۔۔
مذہبی تناظر میں وہ اپنی بات کو کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی حقیقی مذہبی صورتحال موجود نہیں ہے۔ نعرے بازی اور حماقت کی حدود کو چھوتی ہوئی سادہ لوحی کی بات اور ہے۔ ورنہ درحقیقت ہمارا معاشرہ مذہب سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے۔ اپنے مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسے بے شمار لوگوں کو دیکھا ہے جو دوسروں کی معاشی صورتحال کو بہتر دیکھ کر اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگ ان کے نزدیک ایسے بھی ہیں جو دوسروں کے بلند سماجی مرتبوں کو دیکھ کر اپنے سماجی مرتبوں کو بلند کرنے کے لئے کمر ہمت کس کے میدان عمل میں کودے ہوئے ہیں۔ مگرلوگ کسی متقی پرہیز گار آدمی کو دیکھ کر اپنے روحانی مرتبے کی بلندی کے لئے کوشاں نہیں ہوتے۔ دوسروں کی بہتر معاشی حالت اور بلند سماجی مرتبے انسانوں کو ان کے ناکافی ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ مگر کسی روحانی ترقی کو دیکھ کر انہیں ایک لمحے کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس میدان میں کتنے پیچھے ہیں اور انہیں اس شخص کی طرح اس میدان میں آگے بڑھنا چاہئے۔
مصنف کا کہنا کہ خدانخواستہ راقم کے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے معاشرے میں سچے مذہبی لوگ نہیں ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ معاشرہ انہی کے اعمال کی برکتوں سے ابھی تک سالم اور قائم ہے۔ مگر یہ لوگ تعداد میں اتنے ہیں کہ
ہرچند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں
Dr Danish (04-01-2017),intelligent086 (04-02-2017)
Achi baat hai
Thanks for sharing
intelligent086 (04-02-2017),Jelly Bean (04-02-2017)
ان میں اکثر وجوہات جھوٹ بولنے کا سبب بنتی ہیں
اہم معلومات
شیئر کرنے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Jelly Bean (04-02-2017)
pasandeedgi ka shukria.
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks