intelligent086 (04-09-2017)
جھوٹ سے نفرت کی خواہش]
مصنف کے مطابق سچ کی اہمیت یہ ہے ہر شخص سچ کا طالب ہوتا ہے اور جھوٹ کو سخت ناپسند کرتا ہے اس کی مثال وہ یوں دیتے ہیں کہ اگر کسی بہت بڑے دروغ گو یا جھوٹے شخص سے بھی دروغ گوئی کی جائے تو وہ اس پر شدید برہمی کا اظہار کرے گا اور مطالبہ کرے گا کہ اس سے سچ بولا جائے۔ مصف کا کہنا ہے کہ انسان جب تک دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے مگر اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولتا تو معاملہ ایک حد میں رہتا ہے۔ مگر انسان اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے لگے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسان کو اپنے ضمیر کے پست ترین درجے سے بھی محروم ہوگیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جھوٹ کا سب سے خطرناک پہلو]
شاہنواز فاروقی دروغ گوئی کے ایک پہلو کو خطرناک ترین قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جھوٹ کی سب مکروہ بات یہی ہے کہ وہ سچ کی قیمت پر بولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا سبب کیا ہے ؟؟ اور جھوٹ کی نفسیات کیا ہے ؟؟ یعنی انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے۔ ؟؟
دروغ گئی کی ابتداء کیسے ہوتی ہے؟]
وہ اک عربی ضرب المثل سے اپنی بات واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ قومی یا اجتماعی کا معاملہ بھی یہی ہے، یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے کا آغاز اس کے سر کی جانب سے ہی ہوا کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سب سے پہلے کسی قوم کے اہلِ دانش میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مفکرین، فلسفی، علماء کرام، شاعر، ادیب، صحافی، سیاسی و سماجی رہنما وغیرہ شامل ہیں۔ یہ منطقی بات ہے کہ ابتداء میں ابلاغ کا عمل اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے، جب ابلاغ کے عمل کا یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو ابلاغ کا یہ عمل اپنے پھیلائو کے لئے دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے۔
قومی معاملات کا تجزیہ
]
مصنف تاریخی مثال سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر برائی کا آغاز ہمارے سر کی جانب سے ہوا ہے ہمارے سیاست دانوں نے ہم سےجھوٹ بولا۔ شاعروں اور ادیبوں اور دانشوروں نے جھوٹ بولا، علماء نے جھوٹ بولا، صحافیوں نے جھوٹ بولا، ہمیں سب نے جھوٹ کا تجربہ فراہم کیا اور اب
بھی کررہے ہیں۔ دلچسب بات یہ ہےکہ جو اس عمل کے ذمہ دار ہیں وہی اس پر واویلا بھی کررہے ہیں
۔
جھوٹ کے معاشرے پر اثرات
ٓجھوٹ یا دروغ گوئی کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب وہ کچھ یوں دیتے ہیں اگرچہ کہ اہل دانش کی اہمیت بہت ہوتی ہے مگر ایک خاص مرحلے پر جاکر عوام کی اہمیت اہل دانش سے بڑھ جاتی ہے اور وہ اس طرح کے اوپر سے آنے والے پیغام کو عوام ہی زندگی کا تجربہ بناتے ہیں، ہر پیغام اس وقت تک بے معنی ہوتا ہے جب تک وہ زندگی کا عام تجربہ نہ بن جائے۔ تجربہ سے معاشرتی قدریں وجود میں آتی ہیں۔ یہی قدریں معاشرے میں زندگی کا پورا منظر نامہ ترتیب دیتی ہیں۔ شاہنواز فاروقی کا تجزیہ ہے کہ جب کوئی پیغام تجربے میں ڈھل جاتا ہے تو اس کی گو نہ گوں صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہر انسان ایک خاص پیغام کو ایک خاص طریقے سے قبول کرکے اسے اپنے داخلیت کا حصہ بناتا ہے۔ عوام اہل دانش کے پیغام سے ہی نہیں بلکہ ان کے عمل کے سانچے سے بھی اثر قبول کرتے ہیں۔ اگر اوپر کی سطح پر پیغام اور عمل کا سانچہ پیچیدہ ہوتو وہ عوامی تجربہ بنتے بنتے اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ یہ تو تھا جھوٹ کا اجتماعی معاملہ تاہم انفرادی سطح پر یہ صورتحال
کچھ دوسرے محرکات کے باعث ظہور پزیر ہوتی ہے
۔
جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں فرق
سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں بنیادی فرق کیا ہے؟ مصنف کے خیال میں جھوٹ ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورتحال کا عکاس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سچ واضع اور صاف ذہنی کیفیات کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کو ایک جھوٹ بول کر ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی ذہن تہہ در تہہ ذہنی الجھنون کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کو جواز فراہم کرنے کے لئے اسے دوسرا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے۔ دوسرے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے تیسرا جھوٹ ایجاد کرنا پڑتا ہے اور یوں یہ صورتحال ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس سفر میں ہر قدم پر انجام ہی انجام ہے آغاز کہیں نہیں۔
اس کے برعکس سچ کا معاملہ آفتاب آمد دلیل آفتاب والا ہوتا ہے۔ اسے مخصوص معنوں میں کسی جواز کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی جواز ہوتا بھی ہے تو وہ اس کے سہارے کے لیے نہیں بلکہ اس تک پہنچنے کے لئے پل Bridge کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ بلکہ یہ جواز اس سچ کی کوئی بہت معولی جہت ہوتی ہے۔ جو پل کا کام انجام دے کر نمایاں اور معتبر ہوجاتی ہے۔
intelligent086 (04-09-2017)
معلوماتی تحریر
شیئر کرنے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
V good
رائے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks